Anwar-ul-Bayan - Al-Ghaafir : 80
وَ لَكُمْ فِیْهَا مَنَافِعُ وَ لِتَبْلُغُوْا عَلَیْهَا حَاجَةً فِیْ صُدُوْرِكُمْ وَ عَلَیْهَا وَ عَلَى الْفُلْكِ تُحْمَلُوْنَؕ
وَلَكُمْ : اور تمہارے لئے فِيْهَا : ان میں مَنَافِعُ : بہت سے فائدے وَلِتَبْلُغُوْا : اور تاکہ تم پہنچو عَلَيْهَا : ان پر حَاجَةً : حاجت فِيْ : میں صُدُوْرِكُمْ : تمہارے سینوں وَعَلَيْهَا : اور ان پر وَعَلَي : اور پر الْفُلْكِ : کشتیوں تُحْمَلُوْنَ : لدے پھرتے ہو
اور تمہارے لئے ان میں (اور بھی) فائدے ہیں اور اس لئے بھی کہ (کہیں جانے کی) تمہارے دلوں میں جو حاجت ہو ان پر (چڑھ کر وہاں) پہنچ جاؤ اور ان پر اور کشتیوں پر تم سوار ہوتے ہو
(40:80) فیہا : ای فی الانعام۔ منافع (فوائد جمع منفرۃ واحد) سے مراد سواری اور خوراک کے علاوہ فوائد ہیں۔ مثلا ان کے دودھ، ان کے چمڑے وغیرہ سے فائدہ اٹھانا۔ لتبلغوا۔ لام تعلیل کا ہے۔ تبلغوا مضارع (لام کے اول آنے سے نون اعرابی حذف ہوگیا) صیغہ جمع مذکر حاضر۔ تاکہ تم پہنچو۔ حاصل کرو۔ اس کا مفعول حاجۃ ہے۔ فی صدورکم۔ حاجت کی تعریف ہے یعنی جو تمہارے سینوں میں ہے۔ حاجۃ فی صدورکم : وہ مقصد جو تمہارے سینوں میں ہے یعنی تم اپنے دلوں کو مقصد تک پہنچو) مراد ان پر سوار ہوکر سفر کرنا، اسباب لاد کرلے جانا۔ دشمنوں پر چڑھائی کرنا وغیرہ۔ علیہا : ان پر سوار ہوکر ۔ یعنی مویشیوں پر چڑھ کر۔ ھا ضمیر واحد مؤنث غائب کا مرجع الانعام ہے۔ وعلیہا وعلی الفلک میں وعلیہا قول مابعد وعلی الفلک تحملون کے لئے بطور توطئہ (تمہید) استعمال ہوا ہے۔ سفائن البر (الانعام) وسفائن البحر (الفلک) کو اکٹھا بیان کرنے کے لئے۔ مراد :۔ علیہا۔ (الانعام) فی البر وعلی الفلک فی البحر۔ علی الفلک بجائے فی الفلک لفظ ماقبل علیہا کی رعایت سے آیا ہے ورنہ اس (فی الفلک) میں ظرفیت اور استعلاء ہر دو کے معنی موجود ہیں۔ اور جگہ قرآن مجید میں ہے قلنا احمل فیہا من کل زوجین اثنین (11:40) اس (کشتی) میں ہر قسم کے جوڑوں میں سے دو دو کو چڑھا لو۔ تحملون : مضارع مجہول جمع مذکر حاضر حمل مصدر باب ضرب تم سوار کئے جاتے ہو۔ تم لدے پھرتے ہو۔
Top