Anwar-ul-Bayan - Az-Zukhruf : 15
وَ جَعَلُوْا لَهٗ مِنْ عِبَادِهٖ جُزْءًا١ؕ اِنَّ الْاِنْسَانَ لَكَفُوْرٌ مُّبِیْنٌؕ۠   ۧ
وَجَعَلُوْا : اور انہوں نے بنادیا لَهٗ : اس کے لیے مِنْ عِبَادِهٖ : اس کے بندوں میں سے جُزْءًا : ایک جزو۔ حصہ ۭاِنَّ الْاِنْسَانَ : بیشک انسان لَكَفُوْرٌ مُّبِيْنٌ : البتہ ناشکرا ہے کھلم کھلا
اور انہوں نے اس کے بندوں میں سے اس کے لئے اولاد مقرر کی بیشک انسان صریح ناشکرا ہے
(43:15) وجعلوا لہ میں جعلوا کی ضمیر فاعل جمع مذکر غائب کا مرجع کفار ہیں اور لہ میں ہ کا مرجع اللہ ہے۔ انہوں نے بنادیا اس کیلئے من عبادہ : من تبعیضیہ ہے عبادہ مضاف مضاف الیہ۔ جزئ۔ حصہ۔ اولاد۔ جزء الشیء چیز کا وہ ٹکڑا جس سے وہ چیز مل کر بنے۔ اولاد کو بھی جس کا ٹکڑا کہتے ہیں کیونکہ اولاد باپ کے نطفہ سے بنتی ہے اور نطفہ انسان کا جزو ہوتا ہے اس لئے اولاد کو بھی جسم کا ٹکڑا کہتے ہیں۔ بخاری (رح) نے حضرت مسور بن مخرمہ کی روایت سے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ :۔ فاطمہ میرا ٹکڑا ہے جس نے اس کو ناراض کیا اس نے مجھے ناراض کیا۔ ترجمہ آیت :۔ اور انہوں نے اس (اللہ) کے لئے اس کے بعض بندوں کو (اس کا) جزو قرار دیا۔ یا بنادیا۔ اس کلام کا تعلق آیت : ولئن سئالتھم ۔۔ الخ (آیت 9 سورة ہذا) سے ہے۔ دونوں آیتوں میں نہایت تضاد ہے۔ سابق کلام میں جب اقرار کرلیا کہ اللہ ارض و سماوات کا خالق ہے تو پھر کسی مخلوق کو اس کا جزو کہنا بالکل ممکن نہیں۔ جو ذات قابل تجزیہ ہوتی ہے وہ نہ واجب الوجود ہوسکتی ہے اور نہ خالق ۔ (تفسیر مظہری) ان الانسان : ان حرف مشبہ بالفعل بمعنی تحقیق، بلاشک، یقینا، الانسان بمعنی القائل ما تقدم (جلالین) یہاں انسان سے مراد برعایت ال : وہ لوگ ہیں جن کا پہلے ذکر ہوچکا ہے یعنی کفار۔ لکفور میں لام تاکید کا ہے کفور صفت مشبہ کا صیغہ واحد مذکر ، بہت ناشکرا کفروان و کفور (نصر) سے مصدر بھی ہے۔ مبین : اسم فاعل واحد مذکر ، ظاہر کرنے والا۔ ابانۃ (باب افعال) مصدر۔ اس مصدر سے فعل لازم بھی آتا ہے اور متعدی بھی ، اس لئے مبین کے معنی ظاہر بھی ہے اور ظاہر کرنے والا بھی، یہاں بطور لازم آیا ہے بمعنی ظاہر، کھلا ہوا۔ صریحا۔ یہاں کفار کی حد سے بڑھی ہوئی جہالت کو بیان کرنے کے لئے ان حرف تحقیق لام تاکید۔ (صفت مشبہ) اور مبین بیک وقت استعمال کیا گیا ہے۔
Top