Anwar-ul-Bayan - Al-Fath : 18
لَقَدْ رَضِیَ اللّٰهُ عَنِ الْمُؤْمِنِیْنَ اِذْ یُبَایِعُوْنَكَ تَحْتَ الشَّجَرَةِ فَعَلِمَ مَا فِیْ قُلُوْبِهِمْ فَاَنْزَلَ السَّكِیْنَةَ عَلَیْهِمْ وَ اَثَابَهُمْ فَتْحًا قَرِیْبًاۙ
لَقَدْ : تحقیق رَضِيَ اللّٰهُ : راضی ہوا اللہ عَنِ الْمُؤْمِنِيْنَ : مومنوں سے اِذْ : جب يُبَايِعُوْنَكَ : وہ آپ سے بیعت کررہے تھے تَحْتَ الشَّجَرَةِ : درخت کے نیچے فَعَلِمَ : سو اس نے معلوم کرلیا مَا فِيْ قُلُوْبِهِمْ : جو ان کے دلوں میں فَاَنْزَلَ : تو اس نے اتاری السَّكِيْنَةَ : سکینہ (تسلی) عَلَيْهِمْ : ان پر وَاَثَابَهُمْ : اور بدلہ میں دی انہیں فَتْحًا : ایک فتح قَرِيْبًا : قریب
(اے پیغمبر) ﷺ جب مومن تم سے درخت کے نیچے بیعت کر رہے تھے تو خدا ان سے خوش ہوا اور جو (صدق و خلوص) انکے دلوں میں تھا وہ اس نے معلوم کرلیا تو ان پر تسلی نازل فرمائی اور انہیں جلد فتح عنایت کی
(48:18) لقد۔ لام تاکید کا ہے قد ماضی کے ساتھ تحقیق کے معنی دیتا ہے اور ماضی ہی کے ساتھ تقریب کا فائدہ دیتا ہے یعنی اس کو زمانہ حال سے نزدیک بنا دیتا ہے۔ سو لقد رضی اللّٰہ تحقیق اللہ راضی ہوا ہے۔ عن المؤمنین۔ یہاں مؤمنین سے مراد وہ مؤمنین ہیں جو بیعت رضوان میں شامل تھے۔ اذ۔ ظرف زمان۔ جب ۔ جس وقت۔ یبایعونک۔ مضارع جمع مذکر غائب۔ مبایعۃ (مفاعلۃ) مصدر۔ وہ بیعت کرتے ہیں۔ وہ بیعت کر رہے تھے۔ (مضارع بمعنی ماضی۔ البیع کے معنی بیچنے اور شراء کے معنی خریدنے کے ہوتے ہیں لیکن یہ دونوں لفظ ایک دوسرے کے معنی میں استعمال ہوتے ہیں۔ مثلاً شراء بمعنی بیع۔ وشروہ بثمن بخس وراھم معدودۃ اور اس کو تھوڑی سی قیمت یعنی معدہ دے چند درہموں پر بیچ ڈالا۔ اور حدیث شریف میں ہے لایبیعن احدکم علی بیع اخیہ کوئی اپنے بھائی کی خرید پر خرید نہ کرے۔ بایع السلطان اس نے بادشاہ کی بیعت کی۔ یعنی اس قلیل مال کے عوض جو بادشاہ عطا کرتا ہے اس کی اطاعت کا اقرار کرنا۔ اس اقرار کو بیعت یا مبایعت کہا جاتا ہے۔ اس بیعت کے متعلق ارشاد باری تعالیٰ ہے :۔ ان اللّٰہ اشتری من المؤمنین انفسھم واموالہم بان لہم الجنۃ (9:111) تحقیق خدا نے مومنوں سے ان کی جانیں اور ان کے مال خرید لئے ہیں (اور اس کے) عوض ان کے لئے بہشت (تیار کی) ہے۔ اور اسی آیۃ میں آگے چل کر فرمایا :۔ فاستبشروا ببیعکم الذی بایعتم بہ (9:111) تو جو سودا تم نے اس سے کیا ہے اس پر خوش ہوجاؤ اور اس بیع کی تفصیل سورة ہذا (الفتح) میں مذکور ہے۔ فرمایا : لقد رضی اللّٰہ عن المؤمنین اذ یبایعونک تحت الشجرۃ یقینا راضی ہوگیا اللہ تعالیٰ ان مومنوں سے جب وہ درخت کے نیچے آپ کی بیعت کر رہے تھے۔ فائدہ : اس آیت لقدر ؓ ۔۔ الخ ۔ کی وجہ سے اس بیعت کو بیعت رضواب کہتے ہیں اس آیت سے مقصود مومنوں کی تعریف اور مدح ہے اور گزشتہ کلام سے ایفاء بیعت پر برانگیختہ کرنا مقصوف تھا۔ تحت الشجرۃ۔ مضاف مضاف الیہ ، درخت کے نیچے۔ الشجرۃ کو معرفہ اس لئے لایا گیا ہے کہ اس سے مراد خاص درخت ہے جس کے نیچے بیعت لی گئی تھی اور جو بعد میں لوگوں میں اس قدر اہمیت پکڑ گیا کہ حضرت نافع مولیٰ ابن عمر کی روایت کے مطابق لوگ اس کے پاس جاجا کر نمازیں پڑھنے لگے۔ جب حضرت عمر ؓ کو اس کا علم ہوا تو انہوں نے لوگوں کو ڈانٹا اور اس درختت کو کٹوا دیا۔ (طبقات ابن سعد) ۔ لیکن متعدد روایات اس کے خلاف بھی ہیں۔ (تفہیم القرآن) فائدہ : صاحب تفسیر ضیاء القرآن اس آیت کی تشریح میں رقمطراز ہیں :۔ اہل علم آیت کی بلاغت پر غور فرمائیں کہ رضی ماضی کا صیغہ استعمال کیا اور یبایعون مضارع کا ۔ رضی کا صیغہ اس لئے کہ اللہ تعالیٰ ان سے راضی ہوگیا۔ رضا و خوشنودی کی دولت سے سرمدی مالامال کردیا۔ اور یبایعون مضارع ذکر کرنے میں لطف یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کو اپنے بندوں کی یہ ادا اتنی پسند اور محبوب ہے کہ اسے ماضی کے حوالے نہیں کیا جاسکتا ۔ بیعت کا وہ ایمان افروز منظر تو اب بھی نگاہوں میں ہے کہ آپ ﷺ بیٹھے ہیں ۔ آپ کے جاں نثار ذوق و شوق سے دوڑے چلے آرہے ہیں اور بیعت کر رہے ہیں ۔ یہ سہانا منظر اور اس کی ایمان پر ور یاد ہمیشہ حال ہی رہیگی۔ ماضٰ کی داستان نہیں بنے گی۔ مافی قلوبھم : ما موصولہ ہے اور فی قلوبھم اس کا صلہ۔ یعنی یقین صبر، اور وفا کے جذبات۔ مافی قلوبھم من الیقین والصبر والوفائ۔ (طبری، مجمع البیان) السکینۃ : اطمینان، تسلی خاطر۔ نیز ملاحظہ ہو آیت نمبر 48:4 ۔ اثابھم : اثاب ماضی واحد مذکر غائب۔ اثابۃ (افعال) مصدر۔ ثوب مادہ۔ ثوب کا اصل معنی کسی چیز کا اپنی اصل حالت کی طرف لوٹ آنے کے ہیں۔ یا غور و فکر سے جو حالت مقدرہ اور مقصود ہوتی ہے اس تک پہنچ جانے کے ہیں۔ ثاب فلان الی وارہ۔ فلاں اپنے گھر کو لوٹ آیا۔ یا ثابت الی نفسی، میری سانس میری طرف لوٹ آتی۔ غور و فکر سے حالت مقدرہ مقصود تک پہنچ جانے کے اعتبار سے کپڑے کو ثوب کہا جاتا ہے کیونکہ سوت کاتنے سے غرض کپڑا بننا ہوتا ہے لہٰذا کپڑا بن جانے پر گویا سوت اپنی حالت مقصودہ کی طرف لوٹ آتا ہے۔ یہی معنی ثواب العمل کا ہے۔ الثواب۔ انسان کے عمل کی جو جزاء انسان کی طرف لوٹتی ہے اسے ثواب کہا جاتا ہے اس تصور پر کہ وہ جزاء گویا عین عمل ہی ہے حتی کہ اللہ تعالیٰ نے آیت فمن یعمل مثقال ذرۃ خیرا یرہ (95:7) تو جس نے ذرہ بھر نیکی کی ہوگی وہ اس کو دیکھ لے گا۔ میں جزاء کو نفس عمل کو ہی قرار دیا ہے۔ اس لئے یہاں یرجزاء ہ نہیں کہا حالانکہ مراد یہی ہے۔ گو لغوی طور پر ثواب کا لفظ خیر اور شر دونوں قسم کی جزاء پر بولا جاتا ہے لیکن اکثر اور متعارف استعمال نیک اعمال کی جزاء پر ہے۔ چنانچہ فرمایا :۔ ثوابا من عند اللّٰہ عندہ حسن الثواب ۔ (3:195) (یہ) خدا کے ہاں سے بدلہ ہے اور خدا کے ہاں اچھا بدلہ ہے۔ ثواب بمعنی بدلہ، انعام۔ عوض میں جو چیز پہنچے۔ جزاء ، ثواب، اثابھم اس نے ان کو بدلہ دیا۔ اس نے ان کو عطا کیا۔ اس نے ان کو انعام دیا۔ فتحا قریبا۔ موصوف و صفت مل کر مفعول اثاب کا۔ اس فتح سے مراد فتح خیبر ہے۔ جو صفر سہ 7 ھ میں ہوئی۔ ترجمہ :۔ اور ان کو عنقریب آنے والی فتح دی۔
Top