Anwar-ul-Bayan - Al-Hujuraat : 14
قَالَتِ الْاَعْرَابُ اٰمَنَّا١ؕ قُلْ لَّمْ تُؤْمِنُوْا وَ لٰكِنْ قُوْلُوْۤا اَسْلَمْنَا وَ لَمَّا یَدْخُلِ الْاِیْمَانُ فِیْ قُلُوْبِكُمْ١ؕ وَ اِنْ تُطِیْعُوا اللّٰهَ وَ رَسُوْلَهٗ لَا یَلِتْكُمْ مِّنْ اَعْمَالِكُمْ شَیْئًا١ؕ اِنَّ اللّٰهَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ
قَالَتِ : کہتے ہیں الْاَعْرَابُ : دیہاتی اٰمَنَّا ۭ : ہم ایمان لائے قُلْ : فرمادیں لَّمْ تُؤْمِنُوْا : تم ایمان نہیں لائے وَلٰكِنْ : اور لیکن قُوْلُوْٓا : تم کہو اَسْلَمْنَا : ہم اسلام لائے ہیں وَلَمَّا : اور ابھی نہیں يَدْخُلِ الْاِيْمَانُ : داخل ہوا ایمان فِيْ قُلُوْبِكُمْ ۭ : تمہارے دلوں میں وَاِنْ : اور اگر تُطِيْعُوا : تم اطاعت کروگے اللّٰهَ وَرَسُوْلَهٗ : اللہ اور اس کے رسول کی لَا يَلِتْكُمْ : تمہیں کمی نہ کرے گا مِّنْ اَعْمَالِكُمْ : تمہارے اعمال سے شَيْئًا ۭ : کچھ بھی اِنَّ اللّٰهَ : بیشک اللہ غَفُوْرٌ : بخشنے والا رَّحِيْمٌ : مہربان
اعراب کہتے ہیں کہ ہم ایمان لے آئے کہہ دو کہ تم ایمان نہیں لائے (بلکہ) یوں کہو کہ ہم اسلام لائے ہیں اور ایمان تو ہنوز تمہارے دلوں میں داخل ہی نہیں ہوا اور اگر تم خدا اور اس کے رسول کی فرماں برداری کرو گے تو خدا تمہارے اعمال میں سے کچھ کم نہیں کرے گا بیشک خدا بخشنے والا مہربان ہے
(49:14) الاعراب : گنوار، بدو۔ اعراب وہ ہیں جو کہ صحراؤں میں سکونت گزیں ہوں۔ اس کے برخلاف لفظ عرب کے مفہوم میں وسعت ہے کیونکہ اس کا استعمال ان تمام انسانوں کے لئے عام ہے جو ریگستان عرب میں رہتے ہوں خواہ وہ صحراؤں میں بستے ہوں یا آبادیوں کے باشندے ہوں۔ اہل لغت کا بیان یہی ہے اور اسی پر سیبویہ نے کہا ہے کہ اعراب صیغہ جمع تو ہے مگر لفظ عرب کی جمع کا صیغہ نہیں ہے۔ لم تؤمنوا : مضارع نفی ھضد بلم۔ تم ایمان نہیں لائے۔ اسلمنا۔ ماضی جمع متکلم۔ ہم مسلمان ہوئے۔ اسلام (افعال) مصدر۔ لما۔ حرف جازم ہے۔ لم کی طرح فعل مضارع پر داخل ہوکر جزم دیتا ہے اور مضارع کو ماضی منفی کے معنی میں کردیتا ہے۔ ولما یدخل الایمان فی قلوبکم۔ اور ابھی تک ایمان تمہارے دلوں میں داخل نہیں ہوا۔ نیز ملاحظہ ہو (2:214) اس جملہ کا عطف لم تؤمنوا پر ہے۔ وان تطیعوا اللّٰہ ورسولہ۔ جملہ شرط ہے۔ تطیعوا : مضارع مجزوم بوجہ عمل ان صیغہ جمع مذکر حاضر۔ اطاعۃ (افعال) مصدر۔ اللّٰہ ورسولہ دونوں مفعول ہیں تطیعوا کے۔ رسولہ مضاف ۔ مضاف الیہ۔ ہ ضمیر واحد مذکر غائب اللہ کی طرف راجع ہے۔ یایلتکم من اعمالکم شیئا۔ جملہ جواب شرط ہے۔ لایلت مضارع منفی مجزوم بوجہ جواب شرط۔ صیغہ واحد مذکر غائب۔ الت (باب ضرب) مصدر بمعنی حق کم کرکے دینا۔ کام کے ثواب یا اجر میں کمی کرنا۔ ا ل ت مادہ۔ شیئا : مفعول فعل لایلتکم کا۔ وہ تم کو کم نہ دیگا۔ وہ تمہارے حق میں کمی نہ کرے گا۔ دوسری جگہ قرآن مجید میں آیا ہے وما التنھم من عملہم من شیء (52:21) اور ہم ان کے اعمال میں سے کچھ کم نہ کریں گے۔ یعنی ثواب میں کمی نہ کریں گے۔
Top