Anwar-ul-Bayan - Al-Hujuraat : 18
اِنَّ اللّٰهَ یَعْلَمُ غَیْبَ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ١ؕ وَ اللّٰهُ بَصِیْرٌۢ بِمَا تَعْمَلُوْنَ۠   ۧ
اِنَّ اللّٰهَ : بیشک اللہ يَعْلَمُ : وہ جانتا ہے غَيْبَ : پوشیدہ باتیں السَّمٰوٰتِ : آسمانوں کی وَالْاَرْضِ ۭ : اور زمین وَاللّٰهُ : اور اللہ بَصِيْرٌۢ : دیکھنے والا بِمَا تَعْمَلُوْنَ : وہ جو تم کرتے ہو
بیشک خدا آسمانوں اور زمین کی پوشیدہ باتوں کو جانتا ہے اور جو کچھ تم کرتے ہو اسے دیکھتا ہے
(49:18) بصیر۔ بروزن فعیل بمعنی فاعل۔ دیکھنے والا۔ جاننے والا۔ فائدہ : آیات 14 تا 18 میں ان بدوی قبائل کا ذکر ہے جو اسلام کی بڑھتی ہوئی طاقت کو دیکھ کر محض اس خیال سے مسلمان ہوگئے تھے کہ وہ مسلمانوں کی ضرب سے محفوظ رہیں گے۔ اور اسلامی فتوحات کے فوائد سے بھی متمتع ہوں گے یہ لوگ حقیقت میں سچے دل سے مسلمان نہیں ہوئے تھے۔ محض زبانی اقرار ایمان کرکے محض مصلحۃً اپنے آپ کو مسلمانوں میں شمار کر الیا تھا۔ اور ان کی اس باطنی حالت کا راز اس وقت افشا ہوجاتا جب وہ رسول اللہ ﷺ کے پاس آکر طرح طرح کے مطالبے کرتے تھے۔ اور اپنا حق اس طرح جتاتے تھے کہ گویا انہوں نے اسلام قبول کرکے آپ پر بڑا احسان کیا ہے روایات میں متعدد قبائلی گروہوں کے اس رویہ کا ذکر آیا ہے ۔ مثلاً مزنیہ۔ جہنیہ ۔ اسلم۔ اشیحع۔ غفار وغیر ہ وغیرہ۔ خاص طور پر بنی اسد بن خزیمہ کے متعلق ابن عباس اور سعید بن جبیر کا بیان ہے کہ ایک دفعہ خشک سالی کے زمانہ میں وہ مدینہ آئے اور مالی مدد کا مطالبہ کرتے ہوئے بار بار انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے کہا کہ ہم بغیر لڑے بھڑے مسلمان ہوئے ہیں۔ ہم نے اس طرح جنگ نہیں کی جس طرح فلاں فلاں قبیلوں نے جنگ کی ہے۔ اس سے ان کا صاف مطلب یہ تھا کہ اللہ کے رسول سے جنگ نہ کرنا اور اسلام قبول کرلینا ان کے ایک احسان ہے جس کا معاوضہ انہیں رسول اللہ ﷺ اور اہل ایمان سے ملنا چاہیے۔ اطراف مدینہ کے بدوی گروہوں کا یہی وہ طرز عمل ہے جس پر ان آیات میں تبصرہ کیا گیا ہے۔ اس تبصرہ کے ساتھ سورة توبہ کی آیات 90 تا 110، اور سورة الفتح آیات 11-17 کو ملا کر پڑھا جائے تو بات زیادہ اچھی طرح سمجھ میں آسکتی ہے۔ (تفہیم القرآن)
Top