Anwar-ul-Bayan - Al-Hujuraat : 4
اِنَّ الَّذِیْنَ یُنَادُوْنَكَ مِنْ وَّرَآءِ الْحُجُرٰتِ اَكْثَرُهُمْ لَا یَعْقِلُوْنَ
اِنَّ الَّذِيْنَ : بیشک جو لوگ يُنَادُوْنَكَ : آپ کو پکارتے ہیں مِنْ وَّرَآءِ : باہر سے الْحُجُرٰتِ : حجروں اَكْثَرُهُمْ : ان میں سے اکثر لَا يَعْقِلُوْنَ : عقل نہیں رکھتے
جو لوگ تم کو حجروں کے باہر سے آواز دیتے ہیں ان میں اکثر بےعقل ہیں
(49:4) ان الذین ینادونک من وراء الحجرات اکثرہم لا یعقلون : ان حرف مشبہ بالفعل الذین اسم موصول ینادونک من وراء الحجرات صلہ۔ موصول الذین اسم ان ۔ اکثرہم لا یعقلون خبر ان۔ ینادون مضارع جمع مذکر غائب مناداۃ (مفاعلۃ) مصدر ک ضمیر مفعول واحد مذکر حاضر۔ وہ تم کو پکارتے ہیں۔ من ابتدائیہ وراء اصل میں مصدر ہے جس کو بطور ظرف استعمال کیا جاتا ہے۔ آڑ، حد فاصل ۔ کسی چیز کا آگے ہونا۔ پیچھے ہونا۔ چاروں طرف ہونا۔ علاوہ اور سوا ہونا۔ یہاں آیت ہذا میں بمعنی باہر ہے اور مضاف ہے۔ الحجرات مضاف الیہ۔ الحجرات بروزن فعلۃ حجرۃ کی جمع ہے جیسے ظلمات جمع ہے ظلمۃ کی اور غرفت جمع ہے غرفۃ کی۔ حجرہ۔ گھر، خلوت خانہ جس کی چار دیواری ہو ۔ ترجمہ ہوگا :۔ بیشک جو لوگ آپ کو حجروں کے باہر سے پکارتے ہیں ان میں سے اکثر ناسمجھ ہیں ۔ فائدہ : صاحب تفسیر ضیاء القرآن لکھتے ہیں :۔ اسلام سے پہلے خطہ عرب جہالت وناشائستگی کا گہوارہ تھا۔ مکہ جیسے مرکزی شہر میں گنتی کے چند آدمیوں کے سوا ساری آبادی نوشت وخواند سے قاصر تھی۔ تہذیب و معاشرت کے آداب سے یہ لوگ بالکل کورے تھے۔ صحراء نشین بدئووں کی حالت اور بھی نا گفتہ بہ تھی۔ اس آیت کریمہ میں بھی وہ آداب سکھائے جا رہے ہیں جن کا بارگاہ رسالت میں ملحوظ رکھنا از حد ضروری ہے۔ ایک دفعہ بنی تمیم کا وف جو ستر اسی نفوس پر مستمل تھا مدینہ طیبہ آیا۔ اس وفد میں زبر قان بن بدر، عطارد بن حاجب اور قیس بن عاصم ان کے سردار بھی تھے۔ دوپہر کا وقت تھا۔ سرور عالم اپنے حجرہ مبارکہ میں قیلولہ فرما رہے تھے۔ ان لوگوں نے حضور ﷺ کی آمد تک انتظار کو اپنی شان کے خلاف سمجھا اور باہر کھڑے ہو کر آوازیں دینے لگے یا محمد اخرج علینا۔ حضور ﷺ کا نام نامی لے کر کہنے لگے کہ ہمارے پاس باہر آئیے۔ حضور ﷺ تشریف لے آئے تو ان لوگوں نے شیخی بگھارتے ہوئے کہا۔ یا محمد ان مدحنا زین وان شتمنا شین ونحن اکرم العرب۔ یعنی ہم جس کی مدح کرتے ہیں اسے مزین کردیتے ہیں اور جس کی مذمت کرتے ہیں اس کو معیوب بنا دیتے ہیں۔ ہم تمام عربوں سے اشرف ہیں۔ سچے نبی نے فرمایا :۔ کذبتم بل مدح اللہ تعالیٰ زین وشتمہ شین واکرم منکم یوسف بن یعقوب ابن اسحاق بن ابراہیم (علیہ الصلوۃ والسلام ) اے بنی تمیم تم نے غلط بیانی سے کام لیا بلکہ اللہ تعالیٰ کی مدح باعث زینت ہے۔ اور اس کی ہی مذمت باعث تحقیر ہے اور تم سے اشرف اور معزز حضرت یوسف ہیں۔ پھر انہوں نے کہا کہ ہم مفاخرت کے لئے آئے ہیں۔ چناچہ پہلے ان کا خطیب عطارد بن حاجب کھرا ہوا اور اپنے قبیلے کی تعریف میں زمین و آسمان کے قلابے ملا دئیے۔ اور اپنی فصاحت و بلاغت کا مظاہر ہ کیا۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے حضرت ثابت بن قیس کو اس کا جواب دینے کا حکم دیا ۔ مکتب نبوت کا یہ تلمیذ ارشد جب لب کشا ہوا تو ان کے چھکے چھوٹ گئے اور وہ سہم کر رہ گئے۔ اس کے بعد ان کا شاعر زیرقان بن بدر کھڑا ہوا۔ اور اپنی قوم کی مدح میں ایک قصیدہ پڑ ھ ڈالا۔ حضور ﷺ نے حضرت حسان ؓ کو اشارہ فرمایا۔ حضرت حسان نے فی البدیہہ ان کے مفاخر کی دھجیاں بکھیر دیں۔ اور اسلام کی صداقت اور حضور کی عظمت کو اس انداز میں بیان فرمایا کہ ان کافروں کا غرور خاک میں مل گیا اور اقرع کو تسلیم کرنا پڑا کہ نہ ہمارا خطیب حضور کے خطیب کا ہم پلہ ہے اور نہ ہمارا شاعر دربار دسالت کے شاعر سے کوئی مناسبت رکھتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ان پر خصوصی کرم فرمایا اور ان کے دلوں کو اسلام کے لئے کشادہ کردیا۔ اور وہ سارے کے سارے مشرف بہ اسلام ہوگئے ۔ رحمت عالم ﷺ نے انعام و اکرام سے انہیں مالا مال کردیا۔ اقرع بن حابس اور عینیہ بن حصین اس وفد کے سردار تھے۔
Top