Anwar-ul-Bayan - Adh-Dhaariyat : 43
وَ فِیْ ثَمُوْدَ اِذْ قِیْلَ لَهُمْ تَمَتَّعُوْا حَتّٰى حِیْنٍ
وَفِيْ ثَمُوْدَ : اور ثمود میں اِذْ قِيْلَ لَهُمْ : جب کہا گیا ان سے تَمَتَّعُوْا : فائدے اٹھا لو حَتّٰى حِيْنٍ : ایک وقت تک
اور (قوم) ثمود (کے حال) میں بھی (نشانی ہے) جب ان سے کہا گیا کہ ایک وقت تک فائدہ اٹھا لو
(51:43) وفی ثمود : وفی عاد کی طرح اس کا عطف بھی وترکنا فیہا پر ہے۔ (آیت 37) ای وترکنا فی ثمود ایۃ : یعنی قوم ثمود کے قصہ میں بھی ہم نے (اپنی قدرت کی) نشانی چھوڑ دی۔ اذ قیل لہم۔ جب ان میں سے (یعنی قوم ثمود سے) کہا گیا تھا۔ تمتعوا فعل امر، جمع مذکر حاضر تمتع (تفعیل) مصدر۔ تم فائدہ اٹھالو، تم برت لو، تم مزے اڑالو۔ حتی حین : حتی حرف انتہاء غایت (فی الزمان) کے لئے ہے۔ حین وقت ، زمانہ، مدت۔ ترجمہ : جب ان سے کہا گیا تھا کہ تم ایک خاص وقت تک مزے کرلو۔ فائدہ : مفسرین میں اس امر پر اختلاف ہے کہ اس سے مراد کونسی مدت ہے حضرت قتادہ کہتے ہیں کہ اس سے اشارہ سورة ہود کی اس آیت کی طرف ہے جس میں بیان کیا گیا ہے کہ ثمود کے لوگوں نے حضرت صالح کی اونٹنی کو ہلاک کر ڈالا تھا تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان کو خبردار کردیا گیا تھا کہ تین دن تک تم مزے کرلو، اس کے بعد تم پر عذاب آجائے گا (ھود 11:61) ۔ بخلاف اس کے حضرت حسن بصری کا خیال ہے کہ یہ باب حضرت صالح (علیہ السلام) نے اپنی دعوت کے آغاز میں کہی تھی اپنی قوم سے اور اس سے ان کا مطلب یہ تھا کہ اگر تم توبہ اور ایمان کی راہ اختیار نہ کرو گے تو ایک خاص وقت تک ہی تم کو دنیا میں عیش کرنے کی مہلت نصیب ہوگی۔ اور اس کے بعد تمہاری شامت آجائے گی۔ ان دونوں تفسیروں میں دوسری تفسیر ہی زیادہ صحیح معلوم ہوتی ہے کیونکہ بعد کی آیت فعتوا عن امر ربھم (پھر انہوں نے اپنے رب کے حکم سے سرتابی کی) یہ بتاتی ہے کہ جس مہلت کا یہاں ذکر کیا جارہا ہے وہ سرتابی سے پہلے دی گئی تھی اور انہوں نے سرتابی اس تنبیہہ کے بعد کی۔ اس کے برعکس سورة ھود والی آیت میں تین دن کی جس مہلت کا ذکر کیا گیا ہے وہ ان ظالموں کی طرف سے آخری اور فیصلہ کن سرتابی کا ارتکاب ہوجانے کے بعد کی گئی تھی۔ (تفہیم القرآن)
Top