Anwar-ul-Bayan - Adh-Dhaariyat : 45
فَمَا اسْتَطَاعُوْا مِنْ قِیَامٍ وَّ مَا كَانُوْا مُنْتَصِرِیْنَۙ
فَمَا اسْتَطَاعُوْا : تو نہ ان کو استطاعت تھی مِنْ قِيَامٍ : کھڑے ہونے کی وَّمَا كَانُوْا : اور نہ تھے وہ مُنْتَصِرِيْنَ : بدلہ لینے والے
پھر وہ تو نہ اٹھنے کی طاقت رکھتے تھے اور نہ مقابلہ کرسکتے تھے
(51:45) فما استطاعوا من قیام :عاطفہ۔ استطاعوا۔ ماضی جمع مذکر غائب۔ استطاعۃ (استفعال) مصدر۔ وہ نہ کرسکے۔ ان سے نہ ہوسکا۔ ان چیزوں کا بتمام و کمال پایا جانا جن کی وجہ سے فعل سرزد ہوسکے استطاعت کہاتا ہے۔ فما استطاعوا من قیام۔ پھر وہ نہ تو اٹھنے کی طاقت رکھتے تھے۔ اور جگہ قرآن مجید میں ہے لایستطیعون نصر انفسھم (21:43) وہ نہ تو آپ اپنی مدد کرسکتے ہیں ۔ یا اور جگہ فرمایا :۔ من استطاع الیہ سبیلا (3:97) جو اس گھر تک جانے کی استطاعت رکھے۔ طور مادہ۔ طوع کی ضد کرہ ہے جس کو فعل مکمل کرنے کے اسباب مہیا ہوں اس کو مستطیع کہیں گے۔ اس کی ضد عاجز ہے یعنی جس کو تمام اسباب میں سے چند مہیا ہوں اور چند مہیا نہ ہوں۔ وما کانوا منتصرین : واؤ عاطفہ، ما نافیہ۔ کانوا فعل ناقص مستنصرین خبر کانوا کی : اور نہ (ہم سے) انتقام لے سکے یا مقابلہ کرسکے یا اپنی مدد کرسکے۔ منتصرین۔ اسم فاعل، جمع مذکر۔ انتصار (افتعال) مصدر۔ اس کے دو معنی ہیں :۔ (1) انتصر من عدوہ ای انتقم من عدوہ۔ اس نے اپنے دشمن سے بدلہ لے لیا۔ یعنی انتقال لے لیا۔ (2) انتصر علی خصمہ استظھر۔ وہ اپنے حلیف پر غالب آیا۔ اس پر قابو پالیا۔ پہلی صورت میں آیت کا مطلب ہوگا۔ کہ ہم نے ان پر اپنا عذاب مسلط کیا اور وہ لوگ جنہیں اپنی طاقت کا بڑا گھمنڈ تھا۔ ان میں سکت نہ رہی کہ وہ ہم سے انتقام نہ لے سکے۔ دوسری صورت میں معنی ہوگا :۔ کہ وہ ہم پر گا لب نہ ہوسکے اور اپنی قوت سے ہمارے بھیجے ہوئے عذاب کا ٹال نہ سکے۔
Top