Anwar-ul-Bayan - At-Tur : 29
فَذَكِّرْ فَمَاۤ اَنْتَ بِنِعْمَتِ رَبِّكَ بِكَاهِنٍ وَّ لَا مَجْنُوْنٍؕ
فَذَكِّرْ : پس نصیحت کیجیے فَمَآ اَنْتَ : پس نہیں آپ بِنِعْمَتِ : نعمت سے رَبِّكَ : اپنے رب کی بِكَاهِنٍ : کا ھن وَّلَا مَجْنُوْنٍ : اور نہ مجنون
تو (اے پیغمبر ! ) تم نصیحت کرتے رہو تم اپنے پروردگار کے فضل سے نہ تو کاہن ہو اور نہ دیوانے
(52:29) نذکر۔ اس میںسببیہ ہے پہلا کلام تذکیر کی علت ہے اللہ کی طرف سے وعدہ اور وعید کو پورا کرنا وعظ اور نصیحت کے حکم کا سبب ہے۔ ذکر امر واحد مذکر حاضر۔ تذکیر تفعیل مصدر۔ تو یاد دلا۔ تو سمجھا، تو نصیحت کر۔ فما انت ۔۔ الخ۔ اس میں فاء تعلیلیہ ہے یعنی آپ لوگوں کو نصیحت کیجئے کیونکہ آپ اللہ کے فضل سے نہ تو کاہن ہیں اور نہ مجنون۔ ما نافیہ ہے۔ بنعمتۃ ربک۔ ب ملابست ۔ مصاحبت کے لئے ہے۔ (کے ساتھ) یا یہ قسم کے لئے ہے لیکن اقرب یہ ہے کہ ب سببیہ ہے (روح المعانی) ۔ نعمۃ مضاف، ربک مضاف مضاف الیہ مل کر مضاف الیہ نعمۃ مضاف کا۔ مضاف مضاف الیہ مل کر مجرور حرف جار ب کا۔ آپ کے رب کی نعمت کے سبب سے۔ بکاھن ولا مجنون۔ ب زائدہ ہے تاکید کے لئے ہے۔ ترجمہ ہوگا :۔ کیونکہ آپ اپنے رب کے فضل کے سبب سے نہ کاہن ہیں نہ مجنون ہیں۔ کاہن اس شخص کو کہتے ہیں کہ جو تخمینے سے ماضی کے خفیہ واقعات کی خبر دیتا ہو۔ اور عراف اسے کہتے ہیں جو آئندہ کے متعلق خبر دیتا ہو۔ ان دونوں پیشوں کی بناء چونکہ ظن پر ہے جس میں صواب وخطاء کا احتمال پایا جاتا ہے اس لئے رسول مقبول ﷺ نے ارشاد فرمایا : ۔ من اتی عرافا او کاھنا فصدقہ بما قال فقد کفربما انزل علی ابی القاسم ﷺ (حدیث شریف) جو شخص عراف یا کاہن کے پاس جاکر ان کے قول کی تصدیق کرے تو اس نے جو ابو القاسم (یعنی مجھ پر) اتار گیا اس کے ساتھ کفر کیا۔ مجنون : اسم مفعول واحد مذکر۔ جمع مجانین۔ دیوانہ۔
Top