بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Anwar-ul-Bayan - An-Najm : 1
وَ النَّجْمِ اِذَا هَوٰىۙ
وَالنَّجْمِ : قسم ہے تارے کی اِذَا هَوٰى : جب وہ گرا
تارے کی قسم جب غائب ہونے لگے
(53:1) والنجم : واؤ قسمیہ ہے۔ اذا۔ جب ، جس وقت، ناگہاں۔ ظرف زمان ہے زمانہ مستقبل پر بھی دلالت کرتا ہے کبھی زمانہ ماضی کے لئے بھی آتا ہے جیسے واذاراوا تجارۃ اولہوا ن انفضوا الیہا (62:11) اور جب ان لوگوں نے سودا بکتا یا سودا ہوتے دیکھا تو جھٹک کر ادھر ادھر چل دئیے۔ اور اگر اذا قسم کے بعد واقع ہو تو پھر زمانہ حال کے لئے آتا ہے جیسا کہ آیت زیر غور میں ہے۔ والنجم اذا ھوی (53:1) اور قسم ہے تارے کی جب وہ گرنے لگے۔ جب وہ غائب ہوجائے۔ ھویٰ ماضی واحد مذکر غائب ھ و ی مادہ سے مصدر۔ ھوی ھ کی فتح سے باب ضرب سے بمعنی (ستارہ کا طلوع ہونا۔ اور مصدر ھوی ( ھ کے ضمیر سے) باب ضرب سے بمعنی (ستارہ کا) غروب ہونا۔ مستعمل ہے ۔ چونکہ ہر دو مصادر میں ھوی یھوی (ماضی اور مضارع) کی ایک ہی صورت ہے لہٰذا ھوی بمعنی (ستارہ کا) طولع ہونا یا غروب ہونا ہر دو طرح جائز ہے اور دونوں معانی بھی ایک ہی صیغہ میں لئے جاسکتے ہیں یعنی (ستارہ کا) طلوع و غروب ہونا۔ الھوی (باب سمع) کے معنی خواہشات نفسانی کی طرف مائل ہونے کے ہیں اور جو نفسانی خواہش میں مبتلا ہو اسے بھی ھوی کہہ دیتے ہیں کیونکہ خواہشات نفسانی انسان کو اس کے شرف و منزلت کے مقام سے گرا کر مصائب میں مبتلا کردیتی ہے۔ والنجم اذا ھوی : قسم ہے تارے کی جب وہ طلوع ہو یا غروب ہوجائے، النجم مقسم بہٖ ہے۔ النجم کے بارے میں مفسرین کے مختلف اقوال ہیں :۔ (1) جمہور کا قول ہے کہ اس سے مراد ستارہ ہے پھر اس کے متعلق مختلف اقوال ہیں :۔ 1- بعض کے نزدیک یہ کہ کوئی خاص ستارہ نہیں بلکہ جنس مراد ہے یعنی ہر ایک ستارہ۔ 2- بعض کہتے ہیں کہ اس سے مراد ثریا ستارہ ہے کلام عرب میں النجم بول کر یہی مراد لیتے ہیں۔ 3- بعض کا خیال ہے کہ اس سے مراد شعریٰ ستارہ ہے قرآن مجید میں ہے وانہ ھو رب الشعری (54:49) اور یہ کہ وہی شعریٰ کا مالک ہے۔ 4 - بعض کہتے ہیں کہ اس سے زہرہ مراد ہے۔ بہرکیف ایک ستارہ خاص ہو یا عام مگر ستارہ مراد لینا ایک قول ہے۔ (2) دوسرا قول یہ ہے کہ اس سے مراد زمین پر پھیلنے والی بیلیں ہیں کیونکہ قرآن مجید میں ہے والنجم والشجر یسجدان (55:6) اور بیلیں اور درخت (ہر دو ) سجدہ کر رہے ہیں ۔ (3) تیسرا قول یہ ہے کہ اس سے مراد نبی کریم ﷺ ہیں جن کو ظلمات عالم میں روشنی دینے کے سبب بطور استعارہ کے ستارہ کہنا بہت ہی ٹھیک ہے۔ (4) چوتھا قول یہ ہے کہ : النجم سے مراد قرآن شریف ہے تنجیم کے معنی ہیں تفریق اور قرآن مجید ٹکڑے ٹکڑے یعنی تھوڑا تھوڑا ہوکر نازل ہوا ہے۔ اب نجم کے کوئی معنی ہی لے لو مگر اذا ھوی (جب کہ وہ جھکے) سے اسی کے مناسب معنی مراد لئے جائیں گے۔ ستاروں کا جھکنا طلوع و غروب جو خدا کی شان جبروت بتاتا ہے۔ زمین کی وہ بوٹیاں جن کو درخت نہیں کہتے ان کا جھکنا وہی جھکنا ہے جو ہوا سے سربسجود ہوکر اس کی شان یکتائی بتایا کرتی ہیں۔ قرآن کا جھکنا اس کا اوپر سے نازل ہونا ہے۔ رسول مقبول ﷺ و اصحابہ وسلم کا جھکنا رکوع و سجود کرنا ہے جو خدا کے نزدیک ایک عمدہ حالت ہے اور آپ کا جھکنا ذات باری تعالیٰ کی طرف منازل قربت طے کرنا ہے۔ (5) پانچواں قول یہ ہے کہ بعض عرفاء (صوفیہ) کے نزدیک النجم کے معنی بندہ کا دل ہے جو ظلمات ہیولانیہ میں خدا تعالیٰ کا چمکتا ستارہ ہے اور جب وہ اللہ تعالیٰ کی طرف جھکتا ہے تو اس میں اور بھی روشنی آجاتی ہے جس سے وہ حق اور باطل میں تمیز کرنے پر بخوبی قادر ہوجاتا ہے۔ (تفسیر حقانی)
Top