Anwar-ul-Bayan - Al-Haaqqa : 14
وَّ حُمِلَتِ الْاَرْضُ وَ الْجِبَالُ فَدُكَّتَا دَكَّةً وَّاحِدَةًۙ
وَّحُمِلَتِ : اور اٹھائی جائے گی الْاَرْضُ : زمین وَالْجِبَالُ : اور پہاڑ فَدُكَّتَا : تو دونوں توڑ دئیے جائیں گے دَكَّةً : توڑنا وَّاحِدَةً : یکبارگی
اور زمین اور پہاڑ دونوں اٹھا لئے جائیں گے پھر ایک بارگی توڑپھوڑ کر برابر کردئیے جائیں گے
(69:14) وحملت الارض والجبال جملہ معطوف ہے اور اس کا عطف نفخ پر ہے حملت ماضی واحد مؤنث غائب حمل (باب ضرب) مصدر ۔ اٹھانا۔ وہ اٹھائی گئی (وہ اٹھائی جائے گی) یعنی زمین اور پہاڑوں کو ان کی جگہ سے اٹھالیا جائے گا۔ دکتا : ماضی مجہول تثنیہ مؤنث غائب۔ دک (باب ضرب) مصدر سے ۔ بمعنی ریزہ ریزہ کرنا۔ ڈھا کر برابر کرنا۔ کوٹ کر ہموار کرنا۔ اصل میں دک نرم اور ہموار زمین کو کہتے ہیں۔ اور چونکہ نرم زمین ہموار اور ریزہ ریزہ ہوتی ہے اسی لئے اسی مناسبت سے اس کی مصدر کے معنی مقرر ہوئے۔ تمام زمین کو واحد لایا گیا ہے اور تمام پہاڑوں کو واحد لایا گیا ہے ۔ لہٰذا زمین اور پہاڑوں کے لئے تثنیہ کا صیغہ استعمال کیا گیا ہے۔ ملاحظہ ہو آیت (21:30) ان السموت والارض کانتا رتقا ففتقنھما کہ آسمان اور زمین دونوں ملے ہوئے تھے تو ہم نے ان دونوں کو جدا جدا کردیا۔ دکۃ مفعول مطلق موصوف واحدۃ صفت، اسم فاعل واحد مؤنث۔ ایک ہی بار میں ۔ یعنی زمین اور پہاڑوں کو یکبارگی اٹھا کر کوٹ کر ریزہ ریزہ کردیا جائے گا۔
Top