Anwar-ul-Bayan - Al-Haaqqa : 17
وَّ الْمَلَكُ عَلٰۤى اَرْجَآئِهَا١ؕ وَ یَحْمِلُ عَرْشَ رَبِّكَ فَوْقَهُمْ یَوْمَئِذٍ ثَمٰنِیَةٌؕ
وَّالْمَلَكُ : اور فرشتے عَلٰٓي اَرْجَآئِهَا : اس کے کناروں پر ہوں گے وَيَحْمِلُ : اور اٹھائے ہوئے ہوں گے عَرْشَ رَبِّكَ : تیرے رب کا عرش فَوْقَهُمْ : اپنے اوپر يَوْمَئِذٍ : اس دن ثَمٰنِيَةٌ : آٹھ (فرشتے)
اور فرشتے اس کے کناروں پر اتر آینگے اور تمہارے پروردگار کے عرش کو اس روز آٹھ فرشتے اٹھائے ہونگے
(69:17) والملک علی ارجائھا۔ جملہ معطوف ہے اس کا عطف جملہ سابقہ فیومئذ وقعت الواقعۃ پر ہے۔ الملک سے مراد فرشتوں کی جنس ہے کوئی خاص فرشتہ مراد نہیں ارجائھا مضاف مضاف الیہ۔ ارجاء رجا کی جمع ہے یعنی کنارے۔ ھا ضمیر واحد مؤنث غائب کا مرجع السماء ہے اور فرشتے اس کے کناروں پر ہوں گے۔ صاحب ضیاء القرآن اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں :۔ وہ فرشتے جو آج اپنے قیام ، رکوع، سجود، سے آسمان کے چپہ چپہ کو مزین کئے ہوئے ہیں۔ جب آسمان کا نظام درہم برہم ہوجائے گا تو وہ صفیں باندھ کر کناروں پر کھڑے ہوجائیں گے۔ ویحمل عرش ربک فوقھم یومئذ ثمنیۃ : اس جملہ کا عطف بھی سابقہ جملہ کی طرح فیومئذ وقعت الواقعۃ پر ہے۔ فوقھم مضاف مضاف الیہ۔ ان کے اوپر۔ فوقھم : ای فوق الملئکۃ الذین ہم علی الارجاء اوفوق الثمنیۃ ہے (بیضاوی) ۔ یعنی قیامت کے دن آٹھ فرشتے اطراف آسمان پر مقیم ملائکہ کے اوپر یا اپنے اوپر اللہ کے عرش کو اٹھائے ہوئے ہوں گے۔ ثمنیۃ اسم عدد۔ آٹھ ۔ یہاں آٹھ فرشتے مراد ہیں۔ آیت کا مطلب یہ نہیں کہ اللہ تعالیٰ عرش پر تشریف فرما ہوگا ۔ اور فرشتے عرش کو اٹھائے ہوئے ہوں گے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ اس سے منزہ اور پاک ہیں کہ وہ کسی مکان میں سما سکیں۔ عرش کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف اس لئے ہے کہ اس نسبت سے عرش کی شان بلند ہو۔ نیز یہ مقام اللہ تعالیٰ کی خصوصی تجلیات کی جلوہ گاہ ہے۔ کائنات علوی و سفلی میں جس قسم کے تصرفات ہو رہے ہیں جن تدبیروں کا ظہور ہو رہا ہے ان سب کا مرکز یہ مقام ہے جسے عرش کہا جاتا ہے جس طرح بادشاہ اپنے تخت پر بیٹھ کر اپنے فرائض جہانبانی انجام دیتا ہے اسی طرح عالم وجود میں جو کچھ ہو رہا ہے اس کا منبع اور مصدر یہ مقام ہے اس لئے اسے عرش یعنی تخت الٰہی کہا گیا ہے (ضیاء القرآن) لغات القرآن میں منجملہ دیگر توضیحات کے یہ بھی تحریر ہے :۔ امام ابوبکر احمد بن الحسین البیہقی المتوفی 458 ھ کتاب الاسماء والصفات میں لکھتے ہیں :۔ مفسرین کے اقوال یہی ہیں کہ عرش سے مراد تخت ہی ہے اور یہ ایک جسم مجسم ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے پیدا فرمایا ہے اور فرشتوں کو حکم دیا ہے کہ وہ اٹھائے رکھیں اور اس کی تعظیم اور طواف کے ذریعے عبادت کو بجا لائیں۔ جس طرح کہ زمین میں اس نے ایک گھر پیدا فرمایا اور بنی آدم کو حکم دیا کہ اس کا طواف کریں۔ اور نماز میں اس کی طرف منہ کیا کریں۔ (لغات القرآن ج 4 لفظ عرش کے محاذ
Top