بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Anwar-ul-Bayan - An-Naba : 1
عَمَّ یَتَسَآءَلُوْنَۚ
عَمَّ : کس چیز کے بارے میں يَتَسَآءَلُوْنَ : وہ ایک دوسرے سے سوال کر رہے ہیں
(یہ) لوگ کس چیز کی نسبت پوچھتے ہیں ؟
(78:1) عم یتساء لون : عما کس چیز سے یہ اصل میں عن ما تھا نون کا میم میں ادغام کیا گیا ہے۔ کیونکہ ن اور م دونوں غنے میں شریک ہیں۔ اور ما کے الف کو اس لئے حذف کیا گیا ہے تاکہ ما استفہامیہ اور ما خبریہ میں تمیز باقی رہے۔ جس طرح سے نیم اور مم میں آیات ذیل میں ہوا ہے :۔ (1) فیم کی مثال : ان الذین توفہم الملئکۃ ظالمی انفسھم قالوا فیم کنتم قالوا کنا مستضعفین فی الارض (4: 97) ان لوگوں کی جان جنہوں نے اپنے اوپر ظلم کر رکھا ہے جب فرشتے قبض کریں گے تو ان سے کہیں گے کہ تم کس کام میں تھے۔ وہ بولیں گے ہم اس ملک میں بےبس تھے ۔ (ترجمہ عبد الماجد دریا بادی (رح)) (3) مم کی مثال :۔ فلینظر الانسان مم خلق (89:15) تو انسان کو دیکھنا چاہیے کہ وہ کا ہے سے پیدا ہوا۔ یتساء لون : مضارع جمع مذکر غائب تساء ل (تفاعل) مصدر۔ وہ ایک دوسرے سے پوچھیں گے۔ وہ ایک دوسرے سے سوال کریں گے۔ یتساء لون میں ضمیر جمع مذکر غائب کا مرجع کون ہے اس کے متعلق مختلف اقوال ہیں :۔ (1) جمہور کے نزدیک یہ پوچھنے والے یا چرچا کرنے والے کفار تھے۔ اس لئے کہ اس کے بعد کلا سیعلمون اور ہم فیہ مختلفون میں ضمیریں کفار کی طرف پھرتی ہیں اس لئے یتساء لون کی ضمیر بھی انہیں کی طرف پھرنی چاہیے۔ (2) دوسرا قول یہ ہے کہ مسلمان و کفار باہم ایک دوسرے سے پوچھتے تھے کہ کفار مسلمانوں پر شبہات پیش کرتے تھے۔ وہ جواب دیتے تھے۔ لہٰذا ضمیر جمع مذکر غائب ہر دو فریقین کی طرف پھر لوٹتی ہے۔ (3) تیسرا قول یہ ہے کہ مسلمان و کفار سب آنحضرت ﷺ سے سوال کرتے تھے مسلمان اس لئے کہ اور بھی یقین قوی ہوجائے اور کفار تمسخر کی راہ سے یا شکوک و شبہات و ارد کرنے کی غرض سے (تفسیر حقانی) اول و ارجح ہے۔
Top