Ashraf-ul-Hawashi - Hud : 14
فَاِلَّمْ یَسْتَجِیْبُوْا لَكُمْ فَاعْلَمُوْۤا اَنَّمَاۤ اُنْزِلَ بِعِلْمِ اللّٰهِ وَ اَنْ لَّاۤ اِلٰهَ اِلَّا هُوَ١ۚ فَهَلْ اَنْتُمْ مُّسْلِمُوْنَ
فَاِنْ لَّمْ يَسْتَجِيْبُوْا : پھر اگر وہ جواب نہ دے سکیں لَكُمْ : تمہارا فَاعْلَمُوْٓا : تو جان لو اَنَّمَآ : کہ یہ تو اُنْزِلَ : نازل کیا گیا ہے بِعِلْمِ اللّٰهِ : اللہ کے علم سے وَاَنْ : اور یہ کہ لَّآ اِلٰهَ : کوئی معبود نہیں اِلَّا هُوَ : اس کے سوا فَهَلْ : پس کیا اَنْتُمْ مُّسْلِمُوْنَ : تم اسلام لاتے ہو
وہ نہ کرسکیں تو تم یقین کرلو4 قرآن اللہ کا علم لے کر اترا ہے5 اور یہ بھی سمجھ لو کہ اللہ کے سوا کوئی سچا معبود نہیں ہے تو کیا اب بھی تم مانتے ہو (یا نہیں6
4 ۔ یستجوا میں ضمیر ” ھم “ کفار کے لئے ہے اور ” لکم “ میں ” کم “ کے مخاطب آنحضرت ﷺ اور مسلمان ہیں۔ یعنی اگر وہ کفار تمہارے سامنے اس چیلنج کا جواب پیش نہ کریں۔ اور اگر ” ھم “ تمہارے سامنے اس چیلنج کا جواب پیش نہ کریں۔ اور اگر ” ھم “ ضمیر کا مرجع ممن، موصولہ ہو اور ” لکم “ سے مراد کافر ہوں تو معنی یہ ہوں گے کہ جن کو تم اللہ کے سوا مدد کے لئے پکارتے ہو بلائو اگر وہ تمہاری دعوت قبول نہ کریں۔ (شوکانی) ۔ 5 ۔ تو سمجھ لو اور یقین کرلو کہ اس میں سی کے دئے ہوئے احکام ہیں۔ کسی بندے کے بس میں نہیں کہ اس قسم کے احکام دے سکے۔ (شوکانی) ۔ 6 ۔ یہ بھی کافروں سے خطاب ہے یعنی تمہیں چاہیے کہ اسلام میں داخل ہو کر اس کے احکام و شرائع کی اتباع اختیار کرلو۔ اور اگر اس کے مخاطب مسلمان قرار دئیے جائیں تو معنی یہ ہونگے ” کیا اب بھی تم اسلام پر ثابت قرار ہوئے یا نہیں “ ؟ مگر پہلا احتمال گونہ راحج ہے کیونکہ اس سے ضمائر میں اتساق پیدا ہوجاتا ہے۔ (شوکانی) ۔
Top