Ashraf-ul-Hawashi - Al-Baqara : 35
وَ قُلْنَا یٰۤاٰدَمُ اسْكُنْ اَنْتَ وَ زَوْجُكَ الْجَنَّةَ وَ كُلَا مِنْهَا رَغَدًا حَیْثُ شِئْتُمَا١۪ وَ لَا تَقْرَبَا هٰذِهِ الشَّجَرَةَ فَتَكُوْنَا مِنَ الظّٰلِمِیْنَ
وَقُلْنَا : اور ہم نے کہا يَا آدَمُ : اے آدم اسْكُنْ : تم رہو اَنْتَ : تم وَزَوْجُکَ : اور تمہاری بیوی الْجَنَّةَ : جنت وَكُلَا : اور تم دونوں کھاؤ مِنْهَا : اس میں سے رَغَدًا : اطمینان سے حَيْثُ : جہاں شِئْتُمَا : تم چاہو وَلَا تَقْرَبَا : اور نہ قریب جانا هٰذِهِ : اس الشَّجَرَةَ : درخت فَتَكُوْنَا : پھر تم ہوجاؤگے مِنَ الظَّالِمِیْنَ : ظالموں سے
اور ہم نے کہا اے آدم ( علیہ السلام) تو انپی بی بی سمیت جنت میں رہ اور دونوں ( میاں بی بی) فراغت کے ساتھ اس میں سے کھاؤ جس جگہ چاہو مگر اس درخت کے پاس مت پھٹکو اگر ایسا کرو گے تو گنہگاروں میں شریک ہو گے۔4
4 ۔ اس آیت میں آدم (علیہ السلام) کی تیسری فضیلت کا بیان ہے کہ فرشتوں سے سجدہ کروانے کے بعد انہیں جنت میں سکونت کی اجازت دی بعض نے اس جنت سے زمین پر کوئی باغ مراد لیا ہے مگر صحیح یہ ہے یہ جنت آسمان پر تھی پھر جس درخت کے قریب جا نے سے آدم کو منع فرمایا ہے اس کی تعبین میں اختلاف ہے حافظ ابن کثیر مختلف اقوال نقل کرنے بعد لکھتے ہیں قرآن نے اس کے نام یا خاصیت کی کوئی تصریح نہیں فرمائی اور نہ کسی حدیث سے اس کی تعیین ہوتی ہے پھر نہ اس کے جاننے میں کوئی علمی یا اعتقادی فائدہ پہناں ہے اور نہ اس کے نہ جاننے میں کوئی ضرور ہے لہذا بہتر یہ ہے کہ اس کی تعبین سے احتراز کیا جائے یہی رائے حافظ ابن القیم اور امام رازی کی ہے اور اکثر سنف امت کا بھی یہی قول ہے، عصمت انبیاء کے لیے دیکھئے سورت ص اور حوا کی پیدائش کے لیے نساء اور اعراف)
Top