Baseerat-e-Quran - Al-Baqara : 35
وَ قُلْنَا یٰۤاٰدَمُ اسْكُنْ اَنْتَ وَ زَوْجُكَ الْجَنَّةَ وَ كُلَا مِنْهَا رَغَدًا حَیْثُ شِئْتُمَا١۪ وَ لَا تَقْرَبَا هٰذِهِ الشَّجَرَةَ فَتَكُوْنَا مِنَ الظّٰلِمِیْنَ
وَقُلْنَا : اور ہم نے کہا يَا آدَمُ : اے آدم اسْكُنْ : تم رہو اَنْتَ : تم وَزَوْجُکَ : اور تمہاری بیوی الْجَنَّةَ : جنت وَكُلَا : اور تم دونوں کھاؤ مِنْهَا : اس میں سے رَغَدًا : اطمینان سے حَيْثُ : جہاں شِئْتُمَا : تم چاہو وَلَا تَقْرَبَا : اور نہ قریب جانا هٰذِهِ : اس الشَّجَرَةَ : درخت فَتَكُوْنَا : پھر تم ہوجاؤگے مِنَ الظَّالِمِیْنَ : ظالموں سے
اور ہم نے کہا اے آدم تم اور تمہاری بیوی دونوں جنت میں رہو اور جہاں کہیں سے چاہو جیسے چاہو کھاؤ مگر اس درخت کے قریب مت جانا ورنہ تم حد سے بڑھ جانے والوں میں سے ہوجاؤگے
لغات القرآن : آیت نمبر 35 تا 36 (اسکن): تو آباد ہوجا۔ (زوج): بیوی۔ (کلا): تم دونوں کھاؤ۔ (رغد): اچھی طرح (بافراغت) ۔ (حیث): جیسے۔ (شئتما): تم دونوں نے چاہا (تم دونوں چاہو) ۔ (لا تقربا): تم دونوں قریب مت جانا۔ (الشجرۃ): درخت۔ (تکونا): تم دونوں ہوجاؤ گے (تم ہوگے) ۔ (الظلمین ): بےانصاف حد سے نکل جانے والے۔ (ازل): اس نے ڈگمگا دیا۔ (اخرج): اس نے نکلوا دیا۔ (اھبطوا): تم اتر جاؤ۔ (بعضکم لبعض): تم میں ایک دوسرے کے لئے۔ (عدو): دشمن۔ (مستقر): ٹھکانا۔ (متاع): سامان (زندگی گزارنے کا سامان) ۔ (حین): وقت، زمانہ، مدت۔ تشریح : آیت نمبر 35 تا 36 دنیا میں بھیجے جانے سے پہلے اللہ نے آدم (علیہ السلام) کو اور ان کی بیوی حضرت حوا کو جنت میں رکھا تا کہ ان کی طبیعت کے رجحان و میلان کی آزمائش کی جاسکے۔ وہاں جنت کی تمام نعمتیں اور پھل وغیرہ ان کے لئے حلال کر دئیے گئے تھے صرف ایک خاص درخت کے پاس جانے کی ممانعت کردی گئی جو ان کی آزمائش کے لئے رکھا گیا ۔ ۔۔ ۔ یہ درخت انگور کا تھا، گیہوں کا یا کسی اور پھل کا اس کی تفصیل میں جانے کی ضرورت اس لئے نہیں ہے کہ آزمائش اور امتحان کے لئے ہمیشہ کسی ایک معمولی سی چیز کو متعین کیا جاتا ہے۔ جیسے حضرت طالوت کے ساتھیوں کو ایک نہر سے آزمایا گیا تھا اور اصحاب السبت کو ہفتہ کے دن مچھلیوں کے شکار سے۔ شیطان جو انسان کا ازلی دشمن ہے اور انسان سے شدید بغض و حسد رکھتا ہے اس نے آدم (علیہ السلام) اور حضرت حوا کے سامنے قسمیں کھا کھا کر اپنے خلوص اور خیر خواہی کا یقین دلایا اور کہا کہ میں تو صرف آپ کی بھلائی چاہتا ہوں اس لئے آپ کو یہ بتا رہا ہوں کہ جس درخت کے کھانے سے منع کیا گیا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ اگر آپ اس کو کھا لیں گے تو ہمیشہ اسی جنت میں رہیں گے۔ ورنہ آپ جنت سے نکال دئیے جائیں گے۔ آدم و حوا اس کی بناوٹی باتوں میں آگئے اور ان دونوں نے اس ممنوعہ درخت کا پھل کھالیا۔ جیسے ہی ان دونوں نے اس درخت کا پھل کھایا تو ان کے بدن سے جنت کے کپڑے اتر گئے اور وہ اپنے بدن کو جنت کے پتوں سے چھپانے لگے۔ فرمایا گیا کہ ہم نے تمہیں پہلے ہی اس درخت کے چکھنے سے منع کیا تھا۔ اب تم دنیا میں جاؤ وہاں ایک خاص مدت تک رہو، کھاؤ، پیو اور باہمی عداوت کی تکلیفیں برداشت کرو۔ پھر تمہیں ہماری ہی پاس لوٹ کر آنا ہے۔ چناچہ اس کے بعد آدم و حوا کو جنت سے اس دنیا میں بھیج دیا گیا۔ آدم و حوا اس لغزش پر بےانتہا شرمندہ ہوئے اور انہوں نے رو رو کر اللہ سے اس لغزش کی معافی مانگی جو اللہ کے ہاں قبول کرلی گئی اور آدم و حوا کی لغزش کو اسی وقت معاف کردیا گیا۔
Top