Ashraf-ul-Hawashi - An-Nisaa : 8
وَ اِذَا حَضَرَ الْقِسْمَةَ اُولُوا الْقُرْبٰى وَ الْیَتٰمٰى وَ الْمَسٰكِیْنُ فَارْزُقُوْهُمْ مِّنْهُ وَ قُوْلُوْا لَهُمْ قَوْلًا مَّعْرُوْفًا
وَاِذَا : اور جب حَضَرَ : حاضر ہوں الْقِسْمَةَ : تقسیم کے وقت اُولُوا الْقُرْبٰي : رشتہ دار وَالْيَتٰمٰى : اور یتیم وَالْمَسٰكِيْنُ : اور مسکین فَارْزُقُوْھُمْ : تو انہیں کھلادو (دیدو) مِّنْهُ : اس سے وَقُوْلُوْا : اور کہو لَھُمْ : ان سے قَوْلًا : بات مَّعْرُوْفًا : اچھی
اور جب ترکہ بٹ رہا ہو اور وہ ناطے والے جن کو حصہ نہیں پہنچتا اور یتیم اور محتاج آجائیں کچھ ملنے کی امید تو ان میں سے کچھ چٹادو یعنی ترکہ بانٹنے سے پہلے تھوڑا بہت اس کے ساتھ بھی سلوک کردو اور نرنی سے ان سے بات کرو8
8 یعنی ورثہ کو چاہیے کو متر کہ مال میں سے کچھ حصہ بطور صدق و خیرات ان رشتہ داروں یتیموں اور مسکینون کو بھی دیں جو خاندان میں موجود ہوں تقسیم کے وقت موقع پر پہنچجائیں ار اگر یہ لوگ زیادہ کی حرص کریں تو نرمی سے ان سے بات کرو۔ یعنی معذرت کردو یہ وارث ﷺ کا مال ہے تمہار حق نہیں ہے۔ حضرت ابن عباس ؓ فرماتے ہیں فرائض یعنی روثہ کے مقررہ حصے نازل ہونے سے پہلے یہ حکم تھا۔ فرائض نازل ہونے کے بعد اللہ تعالیٰ نے ہر صاحب حق کو اس کا حق دے دیا ہے اب یہ بخشش نہیں ہے اور صدقہ و خیرات میت کی وصیت سے ہی ہوسکتا ہے یہی مذہب جمہور فقہا ائمہ اور ابعہ اور ان کے متبعین کا ہے لیکن بعض اب بھی کچھ صدقہ و خیرات کے قائل ہیں۔ چناچہ بخاری میں حضرت ابن عباس ؓ سے یہ بھی مروی ہے کہ یہ آیت محکم ہے اور روثہ کو حکم ہے کہ تقسیم تر کہ وقت رشتہ داروں صلہ رحمی کر کریں ( ابن کثیر۔ قرطبی)
Top