Ashraf-ul-Hawashi - Al-Fath : 18
لَقَدْ رَضِیَ اللّٰهُ عَنِ الْمُؤْمِنِیْنَ اِذْ یُبَایِعُوْنَكَ تَحْتَ الشَّجَرَةِ فَعَلِمَ مَا فِیْ قُلُوْبِهِمْ فَاَنْزَلَ السَّكِیْنَةَ عَلَیْهِمْ وَ اَثَابَهُمْ فَتْحًا قَرِیْبًاۙ
لَقَدْ : تحقیق رَضِيَ اللّٰهُ : راضی ہوا اللہ عَنِ الْمُؤْمِنِيْنَ : مومنوں سے اِذْ : جب يُبَايِعُوْنَكَ : وہ آپ سے بیعت کررہے تھے تَحْتَ الشَّجَرَةِ : درخت کے نیچے فَعَلِمَ : سو اس نے معلوم کرلیا مَا فِيْ قُلُوْبِهِمْ : جو ان کے دلوں میں فَاَنْزَلَ : تو اس نے اتاری السَّكِيْنَةَ : سکینہ (تسلی) عَلَيْهِمْ : ان پر وَاَثَابَهُمْ : اور بدلہ میں دی انہیں فَتْحًا : ایک فتح قَرِيْبًا : قریب
(اے پیغمبر) مسلمانوں سے راضی ہوچکا ہے وہ (کیکر یا بیری) درخت کے تلے (حدیبیہ میں) تجھ سے بیعت کر رہے تھے2 اللہ تعالیٰ نے جان لیا جو صاخلاص) ان کے دلوں میں تھا تو ان کے دلوں پر تسلی اتاری3 اور ایک نزدیک والی فتح ان کو انعام میں دی یعنی خیبر کی فتح
2 یہ اسی بیعت رضوان کی طرف اشارہ ہے جس کا ذکر پہلے ہوچکا ہے۔ نافع سے روایت ہے کہ جس درخت کے نیچے یہ بیعت ہوئی تھی لوگ اس کی زیارت کے لئے جانے لگے حضرت عمر کو اس کا علم ہوا تو انہوں نے اس درخت کو کٹوا دیا ابو دائود ترمذی میں حضرت جابر سے روایت ہے کہ آنحضرت نے فرمایا :” جس شخص نے اس بیعت میں حصہ لیا وہ ہرگز دوزخ میں نہ جائے گا۔ (شوکانی) جب ان صحابہ کرام کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے گواہی دے دی ہے کہ میں ان سے خوش ہوں پھر وہ بڑا خبیث فرقہ ہے جو ان مقبول بندوں سے ناراض اور ان کے ساتھ بغض و عداوت رکھے۔ (امام الہند) 3 تسلی سے مراد وہ قلبی اطمینان ہے۔ جس کی بنا پر ایک شخص کسی تردد کے بغیر اپنے آپ کو سخت سے سخت خطرہ میں جھونک دیتا ہے اور اس پر کسی قسم کی گھبراہٹ طاری نہیں ہوتی۔ یہی تسلیم و رضا کا درجہ ہے۔ (قرطبی)
Top