Ashraf-ul-Hawashi - Al-Maaida : 43
وَ كَیْفَ یُحَكِّمُوْنَكَ وَ عِنْدَهُمُ التَّوْرٰىةُ فِیْهَا حُكْمُ اللّٰهِ ثُمَّ یَتَوَلَّوْنَ مِنْۢ بَعْدِ ذٰلِكَ١ؕ وَ مَاۤ اُولٰٓئِكَ بِالْمُؤْمِنِیْنَ۠   ۧ
وَكَيْفَ : اور کیسے يُحَكِّمُوْنَكَ : وہ آپ کو منصف بنائیں گے وَعِنْدَهُمُ : جبکہ ان کے پاس التَّوْرٰىةُ : توریت فِيْهَا : اس میں حُكْمُ اللّٰهِ : اللہ کا حکم ثُمَّ : پھر يَتَوَلَّوْنَ : پھرجاتے ہیں مِنْۢ بَعْدِ : بعد ذٰلِكَ : اس وَمَآ : اور نہیں اُولٰٓئِكَ : وہ لوگ بِالْمُؤْمِنِيْنَ : ماننے والے
اور تعجب اس پر ہے وہ لوگ تجھ سے کیوں فیصلہ کر انا چاہتے ہیں ان کے پاس تو خود توریت شریف ہے اس میں اللہ تعالیٰ کا حکم موجود ہے اس کے موافق کیوں نہیں فیصلہ کرتے پھر اس کے بعد بھی نہیں اور اصل بات یہ ہے ان میں ایمان ہی نہیں ہے3
5 اس میں یہود کو تنبیہہ ہے جو حد رجم (سنگساری) کا انکار کرتے تھے اور ان کو ترغیب دی ہے کہ وہ اپنے اسلاف۔ انبیا احبار اور علمائے ربانی کا مسلک اختیار کریں۔ (کبیر) بنی اسرائیل میں حضرت موسیٰ ٰ ( علیہ السلام) کے بعد حضرت عیسیٰ ٰ ( علیہ السلام) تک سینگڑوں پیغمبر ایسے گزرے ہیں جن پر کوئی نئی کتاب نازل نہیں کی گئی اور وہ اپنے زمانے میں لوگوں کو تورات ہی پر عمل کرنے کی نصیحیت کرتے اور ان کے مابین اسی کے احکام کے مطابق فیصلے کرتے تھے خود حضرت عیسیٰ ٰ ( علیہ السلام) کو کوئی نئی شریعت نہیں دی گئی بلکہ ان کی بعثت کا مقصد تورات ہی کی شریعت کو زندہ کرنا تھا۔ الذین ا اسلموا یہ صفت مدح ہے اور ان انبیا ( علیہ السلام) کے کے مسلمان ہونے کے یہ معنی ہیں کہ وہ دین ابراہیم کے تابع تھے یا للہ تعالیٰ کے فرمانبر دار تھے (قرطبی)
Top