Asrar-ut-Tanzil - Al-Baqara : 8
وَ مِنَ النَّاسِ مَنْ یَّقُوْلُ اٰمَنَّا بِاللّٰهِ وَ بِالْیَوْمِ الْاٰخِرِ وَ مَا هُمْ بِمُؤْمِنِیْنَۘ
وَمِنَ : اور سے النَّاسِ : لوگ مَنْ : جو يَقُولُ : کہتے ہیں آمَنَّا : ہم ایمان لائے بِاللہِ : اللہ پر وَ بالْيَوْمِ : اور دن پر الْآخِرِ : آخرت وَ مَا هُمْ : اور نہیں وہ بِمُؤْمِنِينَ : ایمان لانے والے
اور کچھ لوگ ایسے ہیں جو کہتے ہیں ہم اللہ پر اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتے ہیں حالانکہ وہ ایمان نہیں رکھتے۔
آیات 8- 20 اسرارو معارف یہاں کفر کی دوسری قسم بیان ہوتی ہے جسے نفاق کہتے ہیں اور یہ اپنے ضرر کے اعتبار سے شدید تر ہے پہلی پانچ آیات میں مومنین کی تعریف ، پھر دو آیات میں کفر کی وضاحت کے بعد تیرہ آیات میں نفاق اور منافق کے حالات ارشاد ہوئے ہیں تاکہ اس کی خوب وضاحت ہوجائے جس طرح منافق ضرر میں بڑھا ہوا ہے اسی طرح نفاق کا عذاب بھی دوسری قسم کے کفر سے زیادہ ہوگا۔ ان المنافقین فی الدرک الاسغل من النار ، یعنی کفار سے نیچے کے دجے میں ان کو رکھا جائے گا کیونکہ ان کا دعویٰ ہے کہ ہم اللہ پر اور یوم آخرت پر ایمان رکھتے ہیں مگر وہ مومن نہیں ہیں اور مومن نہ ہونے کی دلیل یہ ہے کہ اللہ کو دھوکا دیتے ہیں بھئی ! اللہ کو کیسے دھوکا دے سکتے ہیں فرمایا ، اس طرح کہ یہ اللہ کے ایماندار بندوں کو دھوکا دیتے ہیں بظاہر خودکو مسلمان کرکے بباطن ان سے دشمنی رکھتے ہیں تو اللہ کے ان مخلص بندوں سے دھوکا گویا ذات باری سے دھوکا کرنے کی کوشش ہے۔ منافق کی پہچان : والذین امنوا کا مصداق اول صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی کی ذوات مقدمہ ہیں تو شدید تو کافر جو تھے۔ وہ بظاہر کلمہ پڑھ لینے کے باوجود ان سے حقیقی تعلق پیدا نہ کرسکے بلکہ مسلمانوں کی ترقی اور کامیابی سے بھلا کرتے تھے فرمایا ، ان کا یہ فعل اللہ کے بندوں کا تو کچھ بگاڑ نہیں رہا الٹا ان کے اپنے حق میں تباہی کا سبب بن رہا ہے اس طرح وہ اپنے آپ سے دھوکا کر رہے ہیں جس کا انہیں شعور نہیں۔ گویا صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی محبت یا ان کے ساتھ خلوص ہی ایمان کی دلیل ہے۔ ورنہ کلمہ پڑھنے کے باوجود منافق ہی رہے گا اور اگر ظاہراً عظمت صحابہ کا منکر ہوا تو کافر ہوجائے گا۔ یہ بات واضح ہے کہ جس میں قدر مذاہب باطلہ اسلام کی نام پر وجود میں آئے ان سب نے صحابہ کرام کو ہدف تنقید بنایا۔ ان میں خواہ منکرین حدیث ہوں یا کسی نئی نبوت کے دعویدار۔ سب کی مجبوری یہ رہی ہے کہ قرآن کریم کو اپنی پسند کے معانی پہنا کر اپنی بات بنانے کی کوشش کی جائے اور یہ کام اس وقت تک نہیں ہوسکتا جب تک صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو ان کے مقام سے گرا نہ دیا جائے کہ ان کی زندگی ہی قرآن کی تفسیر ہے۔ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے قرآن کو نبی کریم ﷺ سے سیکھا اور آپ ﷺ کے سامنے قرآن پاک پر عمل کرکے اپنے عمل کی صحت کی سند پائی ۔ اب اگر اسلام کے نام پر کوئی کفر کا کارخانہ قائم کرنا چاہے تو صحابہ کرام کی ذات پر اعتراض سے آغاز کرتا ہے اور یہی نفاق کی سب سے بڑی دلیل ہے بعض فرق باطلہ تو صحابہ کرام کو نہ صرف سب وشتم کا نشانہ بنایا بلکہ اس ضل شنیع کو عبادت کا درجہ دے کر مذہب کی بنیاد بنایا۔ ایسے لوگ کفر ونفاق کے جامع ہیں کہ بعض اعمال و عقائد کافرانہ رکھتے ہیں اور بعض منافقانہ۔ اور یہ اس وجہ سے ہے کہ ان کے دلوں میں مرض ہے فی قلوبھم مرض۔ اور مریض دل شربت محبت پینے کی استعداد نہیں رکھتا بلکہ اس میں صد اور بغض کی عفونت پیدا ہوتی ہی اور مخالفت مومنین دن بدن بڑھتی جاتی ہے فزادھم اللہ مرضا۔ اہل اللہ سے عداوت گویا خود اللہ سے عداوت ہے اور اگر تو بدنصیب نہ ہو تو یہ مرض بڑھتا رہتا ہے جو ہلاکت وتباہی پر منتج ہوتا ہے۔ اے کاش ! بدن کی فکر کرنے والا انسان کبھی اپنے قلب اور اس کی صحت کی فکر بھی کرلیتا۔ کسی ایسے حکیم کو بھی تلاش کرتا جو دلوں کو منور کرتا ہو اور ان کی اصلاح کے فن سے آشنا ہو جب قلبی امراض کا یہ حال رہا تو پھر ولھم عذاب الیم بما کانو لکذبون۔ فرمایا ان لوگوں کے لئے اتنا بڑا جھوٹ بولنے کی وجہ سے بہت دردناک عذاب ہے گویا ایمان و عمل کی کسوٹی صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین ہیں۔ اگر ان سے اختلاف کرتے ہوئے کوئی بزعم خود بہت بڑی نیکی بھی کررہا ہے تو عنداللہ وہ صرف نامقبول ہی نہیں بلکہ منافقت کا درجہ رکھتی ہے اور اس پر عذاب الیم مرتب ہوگا۔ واذ قیل لھم لا تفسدوا فی الارض قالو انما نحن مصلحون الا انھم ھم المفسدون ولکن لا یشعرون۔ جب ان سے کہا جاتا ہے کہ ملک میں فساد پیدا نہ کرو تو کہتے ہیں ہم تو اصلاح چاہتے ہیں۔ اس آیہ کریمہ نے اصلاح و فساد کا معیار مقرر فرمادیا ہے اگر حدودمتعین نہ ہوں تو کوئی ڈاکو بھی خود کو فساد ہی نہیں کہتا بلکہ اپنی حرکات کا جواز تلاش کرتا ہے مگر یوں کسی کے کہنے سے کچھ نہیں ہوتا جب تک اس کائنات کا خالق خود فیصلہ نہ فرمادے۔ اللہ تعالیٰ نے ایسے لوگوں کو جو اندرونی اور باطنی طور پر دین حق سے اختلاف رکھتے تھے فسادی کہا ہے۔ فساد کی حقیقت : یعنی اصلاح نام ہے قول و فعل رسول اللہ ﷺ اور تعامل صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کا خواہ عبادات ہوں یا معاملات ، ہر حال میں جو بات ان کے مخالف ہو ہوئی وہ فساد ہوگا جیسے صبح کی دو رکعت فرض ہیں تو اگر کوئی ایک پڑھے تو باطل اگر تین پڑھے تو بھی باطل۔ یہ تیسری رکعت بھی پہلی دو کے لئے مفسد ہوگی یعنی تمام بھلائی ، تمام خوبصورتی تمام حسن اور ساری اصلاح کا معیار ہے محمد رسول اللہ ﷺ ۔ جو شخص کسی کام میں بھی آپ ﷺ سے اختلاف کرنے والا ہوگا وہ فساد پیدا کرنے والا ہوگا۔ آپ دیکھیں ! دنیا میں کس قدر مشاہیر گزرے ہیں ہر قوم میں ایسے افراد موجود ہیں جن پر قوموں کو ناز ہے مگر ایسے کتنے ہیں جن کا قول قول فیصل ثابت ہوا ہو۔ ایک بھی نہیں قانون اور ضابطے بناتے ہیں پھر خود ہی ان میں ترامیم کرتے ہیں۔ اور یہی اس بات کا اعتراف ہوتا ہے کہ اس میں خامی موجود ہے اور اصلاح کی ضرورت باقی ہے صرف ایک ہستی محمد رسول اللہ ﷺ کی ہے جس نے آج سے چودہ صدیاں پیشتر ایک طرز حیات ایک قانون ایک معاشرت اور ایک ضابطہ عطا فرمایا۔ ایسا کامل ، ایساجامع جسے نہ زمانہ فرسودہ کرسکا اور نہ کوئی بدتر اس سے بہتر تدبیر کرسکا یعنی جس کام کو جس طح سے کرنے کا آپ ﷺ نے حکم دیا وہی اس کی بہترین صورت ہے اس سے بہتر کبھی نہ ہوگا بلکہ اختلاف پیدا کرنے والا بگاڑ پیدا کرکے مفسد کہلائے گا خواہ اپنے زعم باطل میں وہ کتنا ہی اچھا کررہا ہو۔ اسی بات کو آپ اس طرح دیکھیں کہ جو حضور ﷺ نے فرمایا صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین نے عملاً کیا تو گویا صحابہ کرام کا عمل کسی بھی کام کی انتہائی خوبصورت شکل ہے اور اس کا مخالف مفسد یہی اصلاح و فساد کا معیار ہے ورنہ تو منافق بھی کہتے ہیں کہ جی ہم تو اصلاح چاہتے ہیں۔ اللہ کریم فرماتے ہیں خبردار ! خوب اچھی طرح سن لو کہ یہی لوگ فساد کرنے والے ہیں لیکن ان میں شعور نہیں کہ ہر کام کرنے سے دو طرح کا اثر مرتب ہوتا ہے ایک ظاہری اور فانی اور دوسرا باطنی اور ابدی۔ بظاہر حرام کھانے سے پیٹ بھر جاتا ہے اور کوئی ضروری نہیں کہ بدہضمی کی شکایت پیدا ہو مگر بباطن ایک ظلمت اور تاریکی پیدا ہوتی ہے جو نہ صرف دل کو سیاہ کردیتی ہے بلکہ اپنی حد تک ماحول کو بھی متاثر کرتی ہے اسی طرح ہر فعل جو سنت کے مطابق ہو ، نور پیدا کرتا ہے اور ماحول میں نورانیت اور نیکی کا سبب بنتا ہے مگر خلاف سنت فعل سے ظلمت پیدا ہو کر ماحول اور معاشرے میں تباہی پھیلانے کا بب بنتی ہے اور یہی فساد فی الارض ہے جسے جہلا اپنی طرف سے اصلاح کا نام کے کر کرتے ہیں مگر نام بدلنے سے حقیقت نہیں بدل سکتی۔ واذقیل لھم امنوا ، اور جب ان سے کہا جائے کہ بھئی ! اس طرح ایمان لائو جس طرح یہ سب لوگ ایمان لائے ہیں تو کہتے ہیں ہم ان بیوقوفوں کی طرح ماننے سے رہے۔ یہ ہے باطنی تاریکی کا اثر جو بالآخر نوک زبان تک آہی گیا کہ جب ان سے کہا جاتا ہے کہ تم کیسے ایماندار ہو تمہارے اعمال اس کی شہادت نہیں دے رہے ہیں ان اور لوگوں یعنی صحابہ کرام کو دیکھو تو یہ کس طرح ایمان لائے ہیں تم بھی اسی طرح ایمان لائو اور انہی کی طرح عمل کرو تو کہتے ہیں یہ تو بیوقوف لوگ ہیں عقل سے کام ہی نہیں لیتے ہم ان کی طرح کیسے ہوجائیں۔ رسول اللہ ﷺ کو بھی مانیں گے اور کام عقل کے مطابق کریں گے ۔ بھئی دنیا میں بھی رہنا ہے ، آخر فرمایا ، یہی سب سے بڑی بےقوفی ہے کہ یہ اپنی عقل کو رہنما بناتے ہیں حالانکہ منصب رسول اکرم ﷺ کا ہے اور حقیقی عقلمند وہی ہے۔ جس نے حضور ﷺ کے ارشاد کے مقابلے میں اپنی عقل کو لاشے جانا اور عقلمندی اتباع میں سمجھی کہ اختلاف حقیقتاً بےعقلی ہے ان سے اختلاف رکھنے والے خواہ عقائد میں ہوں یا اعمال میں بےعقل ہیں اور بےعلم بھی ہیں کہ علم نام ہے حق کو جاننے کو ایسے علوم جو حق سے آگاہ نہ کرسکیں حقیقتاً بےعقلی ہے ان سے اختلاف رکھنے والے خواہ عقائد میں ہوں یا اعمال میں بےعقل ہیں اور بےعلم بھی ہیں کہ علم نام ہے حق کو جاننے کا ایسے علوم جو حق سے آگاہ نہ کرسکیں حقیقتاً جہالت کا درجہ رکھتے ہیں۔ علمے کہ راہ حق نہ نماید جہالت است واذالقوالذین امنوا۔ ان کا حال یہ ہے کہ جب مومنین سے ملتے تو کہتے ہیں ہم ایمان لائے اور جب اپنے سرداروں کے پاس جاتے ہیں ، تو کہتے ہیں ہم تمہارے ساتھ ہیں ہم تو ٹھٹھہ کر رہے تھے۔ یہاں منافقین کا حال تو بیان ہو ہی رہا تھا اللہ کریم نے ان کے سرداروں یا پیشرئوں کو ” شیاطین “ کا نام دیا ہے کہ جب اپنے شیطانوں کے پاس لوٹتے ہیں یعنی جو لوگ دین حق کے خلاف کوئی راہ نکالتے اور اس پر لوگوں کو چلانے کی سعی کرتے ہیں وہ بھی شیاطین ہیں۔ اللہ یستھزبھم اللہ کریم انہیں ذلیل کرتا ہے ایسے الفاظ جب ذات باری کی طرف منسوب ہو تو معنی بعیدمراد ہوتا ہے وہ معنی جو اس فعل کا نتیجہ ہو۔ جس سے ٹھٹھہ کیا جائے حقیقتاً مراد اس کو ذلیل کرنا ہوتا ہے تو اللہ ان کو اس طرح ذلیل کرتا ہے کہ انہیں اور ڈھیل دیتا ہے اور وہ گمراہی میں دھنستے ہی چلے جاتے ہیں بظاہر حیات دنیوی پر خوش ہیں کہ ہم نے خوب دائو لگایا کہ دعویٰ مسلمانی کا کرکے جس قدر فوائد ممکن تھے اسلام سے حاصل کئے اور جہاں قربانی دینے کا وقت آیا ہم جان بچا گئے۔ یہ لوگ اس حقیقت کو پا ہی نہیں سکتے۔ کہ حقیقی فائدہ قربانی ہی میں ہے اور کس قدر عظیم ہے وہ انسان جس کے اوقات ، جس کی قوتیں ، جس کی دولت اللہ پر نچھاور ہو۔ یہ منافق تو ایسے لوگ ہیں کہ جنہوں نے ہدایت دے کر گمراہی خریدی اولئک الذین اشترو الضلالۃ فماربحت تجارتھم وما کانوا مہتدین۔ گمراہی اور ہدایت ایک دوسرے کی ضد ہیں ان میں سے ایک حاصل ہوئی تو دوسری کی رخصت کردے گی انسان کی ضرورت ہے ہدایت کی صحیح راستے کی اب جو کوئی گمراہی اختیار کرے گا تو اس نے ہدایت چھوڑ دی۔ یہاں آج کے بےعمل معاشرے کے لئے لمحہ فکریہ ہے کہ لوگ عمل دین کے خلاف کرتے ہیں اور خود کو ہدایت پر بھی جانتے ہیں گویا دونوں جمع کر رکھی ہیں جو محال ہے۔ یہ لوگ بھی ہدایت چھوڑ کر سخت خسارے میں رہے ان کی یہ تجارت انہیں قطعاً کوئی نفع نہیں دے سکتی بلکہ ان کی مثال تو ایسے ہے جیسے کچھ افراد جنگل وخرابے میں رات کی ہولناک تاریکی میں گھر گئے ہیں اور اندھیرے سے گھبرا کر انہوں نے آگ جلائی جب آگ نے ماحول روشن کیا تو اللہ نے ان کی روشنی سلب کرلی۔ مثلھم کمثل الذی استوقد ناراً…لایرجعون۔ انسان طبعاً ہدایت کا طلب ہے جب بعثت نبوی سے قبل سخت ظلمت و تاریکی چھارہی تھی تو سب لوگ گھبرا اٹھے اور چاہتے تھے کہ کوئی اعلیٰ صورت حال پیدا ہو تو وحی الٰہی ایک روشنی بن کر ظاہر ہوئی اور پورے ماحول کو جگمگا دیا ، گویا اس ظلمت کدے میں روشنی ہوگئی مگر اس کی قدر نہ کرنے کی وجہ سے اللہ نے ان کی روشنی چھین لی اور یہ اس سے استفادہ کرنے کے قابل ہی نہ رہے ذھب اللہ بنورھم ، اب یہ ظلمت کدے میں بھٹکے رو گئے کہ دیکھ ہی نہیں سکتے نہ صرف دیکھ نہیں سکتے بلکہ آنکھ کے ساتھ کان اور زبان بھی گئے تو ان کا لوٹ کر آنا کیسے ممکن ہے گویا گمراہی سے واپس کی راہ ہی مسدود ہوگئی اب وہ اس سے باز نہیں آتے۔ یا پھر ان کی مثال ایسی ہے جیسے سخت بارش ہو اوکصیب من السماء جس میں آندھی مرہی نہ جائیں۔ حال یہ ہے کہ ان کی یہ بودی تدبیر بھلا انہیں اللہ کی گرفت سے کیسے بچا سکتی ہے۔ اللہ تو ہر حال میں کافروں کو اپنے احاطہ میں لئے ہوئے ہے یعنی یہ ہمہ وقت اس کے قبضہ قدرت میں ہیں۔ اب چمک ایسی ہے کہ آنکھوں کو خیرہ کرتی ہے۔ جب ذرا چمک ہوتی تو وہ قدم چل پڑے پھر جب تاریکی چھاگئی تو کھڑے کے کھڑے رہ گئے جیسے اندھیری سخت بارش میں بادلوں کی گھن گرج میں پھنسے ہوئے مسافر ہوں۔ انسانیت کی حالت یہی تھی جس میں حضور اکرم ﷺ بجلی کی روشنی کی طرح چمکے اور بھٹکی ہوئی انسانیت کی راہنمائی فرماتی یہ منافقین جب کبھی حضور ﷺ کی طرف متوجہ ہوتے ہیں تو ان کا دل بھی نیکی کی طرف مائل ہوتا ہے مگر جب اپنی فطری تاریکی کا اثر ہوتا ہے تو اس گمراہی کے گڑھے میں کھڑے کے کھڑے رہ جاتے ہیں اور اگر اللہ چاہتا تو ان کے آنکھ کان سب چھین لیتا کہ جب انہوں اللہ کے رسول ﷺ کو انصاف کی نگاہ سے نہ دیکھا تو ان کے پاس آنکھ ہی کیوں رہے اور جب آپ ﷺ کے ارشادات نہیں سنتے تو کان کی نعمت سے فائدہ ہی کیوں اٹھائیں اور اللہ اس سب پر قادر ہے۔ یہ دنیا دار ابتلا ہے ایک معین وقت تک فرصت ہے کہ انسان بااختیار خود اگر ہدایت پر چلے تو بہتر نہ جیسے چاہے زندگی بسر کرے مگر آخرت میں ایسے لوگوں سے یہ چیزیں واقعی چھن جائیں گی اور میدان حشر میں اس حال میں کھڑے ہوں گے کہ اندھے ہوں گے ، کان ضائع ہوچکے ہوں گے اور بات کرنے کی توفیق سلب بلکہ دوزخ گدھوں کی طرح چلائیں گے یہ اعمال کا وہ اثر ہوگا جو ظاہر بین نکاہ سے پوشیدہ ہے اللہ ہم سب کو اس سے امان میں رکھے۔
Top