Asrar-ut-Tanzil - Al-Ahzaab : 9
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اذْكُرُوْا نِعْمَةَ اللّٰهِ عَلَیْكُمْ اِذْ جَآءَتْكُمْ جُنُوْدٌ فَاَرْسَلْنَا عَلَیْهِمْ رِیْحًا وَّ جُنُوْدًا لَّمْ تَرَوْهَا١ؕ وَ كَانَ اللّٰهُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ بَصِیْرًاۚ
يٰٓاَيُّهَا : اے الَّذِيْنَ اٰمَنُوا : ایمان والو اذْكُرُوْا : یاد کرو نِعْمَةَ اللّٰهِ : اللہ کی نعمت عَلَيْكُمْ : اپنے اوپر اِذْ جَآءَتْكُمْ : جب تم پر (چڑھ) آئے جُنُوْدٌ : لشکر (جمع) فَاَرْسَلْنَا : ہم نے بھیجی عَلَيْهِمْ : ان پر رِيْحًا : آندھی وَّجُنُوْدًا : اور لشکر لَّمْ تَرَوْهَا ۭ : تم نے انہیں نہ دیکھا وَكَانَ : اور ہے اللّٰهُ : اللہ بِمَا : اسے جو تَعْمَلُوْنَ : تم کرتے ہو بَصِيْرًا : دیکھنے والا
اے ایمان والو ! اپنے اوپر اللہ کی اس مہربانی کو یاد کرو کہ جب تم پر لشکر چڑھ آئے تو ہم نے ان پر (تیز) ہوا بھیجی اور ایسے لشکر (بھیجے) جن کو تم نہیں دیکھ سکتے تھے اور جو کام تم کرتے ہو اللہ ان کو دیکھ رہے ہیں
رکوع نمبر 2 ۔ آیات 9 ۔ تا 20: اسرارو معارف اس رکوع اور اس سے اگلے رکوع میں غزوہ احزاب کا واقعہ اور حالات بیان ہوئے تو بہتر معلوم ہوتا ہے کہ واقعہ احزاب بیان کردیا جائے تاکہ معانی اور مفہوم سمجھنے میں آسانی رہے۔ غزوہ احزاب یا جنگ خندق کا واقعہ ہجرت مدینہ کے بعد مشرکین مکہ نے مسلمانوں پر مسلسل حملے کیے کہ ہجرت کے اگلے سال میدان بدر میں تیسرے سال احد میں اور اس سے اگلے سال جنگ خندق میں سخت مقابلہ رہا اور بفضل اللہ صحابہ کرام کی یہ قربانیاں جو آپ ﷺ کی قیادت میں اللہ کے حضور پیش ہوئیں ان کی قبولیت کے صدقے پورا عالم اسلام ان کی برکات سے بہرہ ور ہوا ظلم و جور کفر و شرک اور جہالت کا دنیا سے خاتمہ ہو کر انسانی قلوب اللہ کے نام سے آباد ہوئے بعض روایات میں غزوہ خندق پانچویں سال ہوا بہرحال یہ تین حملے مسلسل کیے گئے جن میں یہ حملہ بہت بڑا تھا جو اس ارادے سے کیا گیا کہ مسلمانوں کا نام تک مٹا دیا جائے۔ یہود کی سازش : اس واقعہ کا محرک یہود کا سازشی گروہ تھا جس نے مکہ مکرمہ جاکر مشرکین کو حملہ کرنے کی ترغیب دی اور اپنی پہلی رنجش بھلا کر یہ جھوٹ بولا کہ ہمارے نذدیک اسلام اور مسلمانوں سے تم اور تمہارا مذہب زیادہ بہتر ہے حالانکہ اہل کتاب ہونے کی وجہ سے مشرکین سے کشیدہ رہا کرتے تھے۔ چناچہ بیت اللہ میں جمع ہو کر یہود اور مشرکین نے معاہدہ کیا۔ پھر یہی یہودی بنو عطفان کے پاس گئے جو خیبر کے پاس تھے انہیں خیبر کی کھجور کی فصل سے حصہ دینے کے وعدے پر اپنے ساتھ شامل کیا۔ لشکر کفار کی تعداد : اور یوں کم و پیش عرب کے سب غیر مسلم قبائل مل کر مدینہ منورہ پر حملہ آور ہوئے جن میں قریش کے چار ہزار جنگجو جوان تین سو گھوڑے اور ایک ہزار اونٹ تھے اور دوسرے قبائل مل کر پندرہ ہزار کا لشکر جرار بن گیا جو مدینہ منورہ پر یلغار کرنے روانہ ہوا۔ بعض روایات میں دس ہزار اور بعض میں تعداد بارہ ہزار بیان ہوئی ہے غالبا جوں جوں لوگ شامل ہوتے گئے اس طرح روایات ملتی ہیں اور آخری روایت پندرہ ہزار کی ہوگی۔ واللہ اعلم۔ اسلامی لشکر اور طریق جنگ : اسلامی لشکر کی تعداد اس جنگ میں تین ہزار تھی اور چھتیس گھوڑے تھے آپ ﷺ نے ہر میدان میں نئی جنگی حکمت عملی اختیار فرمائی۔ بدر میں چشموں اور میدان پر قبضہ کر کے مشرکین کو اپنی پسند کے میدان میں لڑنے پر مجبور کردیا احد میں پیچھے پہاڑ رکھ کر اس پر تیر انداز بٹھا دیے اور اس جنگ میں عرب میں پہلی دفعہ مصنوعی رکاوٹ سے دشمنوں کا راستہ روک دیا کہ جب آپ ﷺ نے مشورہ طلب فرمایا تو حضرت سلمان جو فارس کے باشندے تھے عرض کرنے لگے کہ ہمارے بادشاہ قلعوں کے گرد خندق بنایا کرتے تھے چناچہ آپ ﷺ نے حبل سلع کو پیٹھ پر رکھ کر سامنے کے تمام راستے کو خندق سے روکنے کا حکم دیا اور بنفس نفیس لکیر لگا دی کہ یہ ان خندق کھودی جائے۔ خندق کی لمبائی اور تیاری : خندق کی لمبائی تقریبا ساڑھے تین میل تھی اور گہرائی پانچ گز یا پندرہ فٹ اور چوڑائی اس سے یقینا زیادہ ہوگی کہ کوئی سوار اسے کود کر عبور نہ کرسکے۔ آپ ﷺ نے دس دس آدمیوں میں چالیس گز خندق سپرد کی اور کل چھ یوم میں خندق تیار ہوگئی۔ آپ ﷺ نے بنفس نفیس حصہ لیا کھودتے بھی تھے اور مٹی بھی نکالتے تھے۔ عجیب واقعہ : پوری خندق میں کہیں رکاوٹ نہ آئی مگر حضرت سلمان اور ان کی جماعت کے سامنے چٹان آگئی جو ٹوٹنے کا نام نہ لے رہی تھی حتی کہ ان کی کدالیں اور اوزار ٹوٹ گئے اللہ نے واضح کردیا کہ تدابیر میں اثر بھی وہی پیدا کرتا ہے ورنہ ناکام ہوجاتی ہیں۔ ھضرت سلمان آپ ﷺ کی خدمت میں پہنچے آپ تشریف لائے کہ شکم مبارک اور پشت مبارک نظر نہ آتی تھی اگرچہ زیب تن نہ تھا سب مٹی اور گرد سے ڈھک چکی تھی۔ کشف و مشاہدہ : آپ نے تین ضربیں لگائیں آور ہر ضرب میں ایک حصہ چٹان ٹوٹ جاتی تھی۔ آپ ﷺ ایک طرف بیٹھ گئے تو حضرت سلمان نے عرض کیا یا رسول اللہ چٹان تو ٹوٹ گئی مگر ہر ضرب میں نور کی ایک بہت بڑی لہر اٹھی اور روشنی بلند ہوئی تو آپ ﷺ نے پوچھا سلمان تو نے دیکھا عرض کیا ہاں تو فرمایا پہلی روشنی میں یمن کے محلات اور خزانے پر کسری کے محلات اور پھر رومیوں کے محلات دکھائے گئے اور مجھے اطلاع دی گئی کہ میرے امتی ان مقامات کو فتح کریں گے اور سب کے سب خلافت راشدہ کے دور میں فتح ہوگئے یعنی ولی اللہ نے مشاہدہ تو کرلیا تعبیر اور حقیقت جاننے کے لیے نبی ہی کا محتاج ہوتا ہے۔ جب یہ بات پھیلی تو منافقین اور کفار نے بڑی طعنہ زنی کی کہ زندگی کے لالے پڑے ہوئے ہیں اور یہ چلے ہیں روم ایران اور یمن فتح کرنے مگر صحابہ کرام کا حوصلہ بہت بلند ہوا اور جب کفار کا لشکر خندق پر پہنچا تو حیران رہ گیا کہ ان کا ارادہ شہر پر غارت کرنے کا تھا چناچہ خندق کے اس پار خیمہ زن ہوگئے مسلمانوں نے بچے اور خواتین بنی حارثہ کے قلعہ میں جمع کردیئے اور پندرہ سال تک کے بچے شامل جہاد تھے سب کمر بستہ ہو کر خندق پر جمع ہوگئے جہاں مہینہ بھر مقابلہ جاری رہا۔ قضا نمازیں : دن بھر دونوں طرف سے تیر اندازی اور کوشش جاری رہتی کفار عبور کرنے کی کوشش کرتے اور مسلمان روکنے کی چناچہ ایک روز اس قدر گھمسان رہا کہ آپ ﷺ کی صحابی سمیت چار نمازیں قضا ہوئیں اور عشاء کے ساتھ ادا کی گئیں فاقہ کشی سے لوگوں نے پیٹ پر پتھر باندھے ہوئے تھے۔ حضرت سعد بن معاذ ؓ کی دعا : حضرت سعدبن معاذ تیر سے سخت زخمی ہوگئے تو دعا کی اے اللہ اگر قریش کا پھر کوئی حملہ آپ ﷺ پر باقی ہے تو مجھے زندہ رکھ اور اگر نہیں تو موت دے دے مگر یہود بنو قریضہ کا انجام دیکھ کر شہید ہونا چاہتا ہوں کہ انہوں نے بد عہدی کی وہ مسلمانوں کی پیٹھ پر تھے اور مسلمانوں کے ساتھ معاہدہ تھا مگر قریش اور یہود نے سازش کر کے اپنے ساتھ ملا لیا اور یوں ہر طرف سے خطرات میں گھر گئے ۔ معجزات : مگر اس غزوہ میں آپ ﷺ کے بیشمار معجزات میں سے یہ بھی ہوا کہ بنو عطفان کا ایک آدمی نعیم ابن مسعود مسلمان ہو کر حاضر ہوا اور خدمت کا طالب ہوا تو آپ نے جنگی حکمت عملی کے تحت بنو قریضہ اور مشرکین کے لشکر میں غلط فہمی پیدا کرنے پر مقرر کردیا جس کی تدبیر سے ان میں پھوٹ پڑگئی مسلمان فاقہ کشی پہ مجبور تھے کہ حضرت جابر نے عرض کیا یا رسول اللہ کچھ سالن اور تین سیر کے قریب آٹا گھر میں ہے آپ تشریف لائیں تو خدمت کی سعادت حاصل کروں لیکن آپ ﷺ نے سارے لشکر میں اعلان فرما دیا اور خود تشریف لے جا کر تقسیم فرمانے لگے۔ سب نے خوب پیٹ بھر کر کھالیا تو حضور ﷺ نے تناول فرمایا اور کھانا ویسا ہی باقی تھا۔ مہینہ بھر کے مقابلہ کے بعد اللہ نے ایک سخت سرد ہوا بھیج دی کفار کے خیمے اکھڑ گئے اور ہنڈیاں تک الٹ گئیں اور سخت سردی پڑنے لگی چناچہ کفار نے واپسی کی ٹھانی۔ حضرت حذیفہ ؓ کو خبر لانے پر معمور فرمایا تھا لشکر کفار کی واپسی کی نوید لائے اور یوں مسلمانوں کو ایک عظیم فتح نصیب ہوئی آپ واپس پہنچے تو اللہ کا حکم ہوا بنی قریضہ کا قصہ نبٹایا جائے چناچہ لشکر اسلام نے بلاتاخیر ان کا محاصرہ کرلیا انہوں نے اس شرط پر ہتھیار ڈال دیے کہ حضرت سعد کا فیصلہ ہمیں منظور ہے آپ نے فیصلہ دیا کہ مردوں کو قتل کیا جائے اور عورتوں اور بچوں کو قیدی بنایا جائے اور اس کے بعد شہید ہوگئے۔ یہ واقعہ نہایت اختصار کے ساتھ لکھا گیا ہے تفاصیل دوسری کتب میں دیکھی جاسکتی ہیں چناچہ ارشاد ہوتا ہے صحابہ کرام کی جانثاری کی شہادت : کہ اے ایمان والو اللہ کے احسانات کو یاد رکھو کہ جب کفار کے لشکر نے تمہیں گھیر لیا تھا اور یہ احسان ہمیشہ کے لیے امت پہ ہے کہ اللہ نے وہاں فتح نصیب فرمائی تو سب تک اسلام کا پیغام پہنچا ورنہ کفار تو مسلمانوں کو نابود کرنے کے ارادے لے کر آئے تھے مگر اللہ نے فرشتوں کے لشکر بھیج دیے اور ان پر ہواؤں کو مسلط کردیا اور اللہ تمہارے جانثارانہ کردار کو دیکھتا ہے کہ جب ہر طرف سے دشمنوں نے یلغار کردی باہر سے حملہ آور اور اندر سے بد عہدی کرنے والے یہودی تو لوگوں کا یہ حال ہوگیا گویا آنکھیں پتھرانے لگی ہوں اور دل اچھل کر حلق میں آن اٹکے ہوں کہ بظاہر اس ننھی سی اسلامی ریاست کے نشان باقی رہنے کا کوئی امکان نہ تھا حتی کہ مسلمانوں کو غیر اختیاری طور پر وساوس آنے لگے کہ آخر اللہ کی مدد بھی کس صورت میں جلوہ گر ہوگی کوئی بھی تو راستہ نظر نہ آتا تھا یہ ایمان والوں کا بہت سکت امتحان تھا جس نے انہیں شدید طریقے سے ہلا کر کھ دیا۔ بیمار دل : اور منافقین اور وہ لوگ جن کے دل مریض تھے یعنی ایمان میں کمزوری دل کی بیماری ہے جو نفاق پیدا کرتی ہے جس کا علاج اللہ کا ذکر ہے تو منافقین یہاں تک کہ گزرے کہ کفار کے ان لشکروں کے سامنے اللہ کا اور اس کے رسول کا وعدہ بھی سوائے ایک رنگین فریب کے کچھ بھی نہیں اور منافقین جمع ہو کر کہنے لگے اے یثرب کے باسیو بھاگ چلو یہاں موت کے سوا کچھ نہ ملے گا اور واقعی منافقین آپ سے رخصت کے طالب ہوئے بہانہ کرتے تھے کہ ہمارے گھر اکیلے ہیں کوئی دیکھ بال کرنے والا نہیں ہے مگر حق یہ ہے کہ گھروں کو تو وہ کیا کریں گے صرف میدان سے فرار چاہتے ہیں ۔ مفادات دنیا کے لیے کافر کی غلامی منافق کی خصوصیت ہے : اور ان منافقین کو تو دشمن کی غلامی کرنے میں بھی تامل نہ ہوگا اگر کافر شہر فتح کرلیں تو یہ ان کے قدموں میں پڑے ہوں گے یعنی دنیا کے فوائد اور تحفظ کی امید پر کافر کی غلامی قبول کرنا منافق کی خصوصیت ہے۔ یہ وہی لوگ ہیں جو پہلے اسلام قبول کرنے اور جہاد پر بیعت کرنے والے تھے اور اللہ سے وعدہ کرچکے تھے کہ کبھی میدان سے منہ نہ موڑیں گے یقینا اللہ اس وعدے کی بازپرس بھی کرے گا آپ انہیں فرما دیجیے کہ فرار موت سے نہیں بچا سکتا اور نہ قتل ہونے سے بچاؤ کی ضمانت دیتا ہے کہ موت کا وقت تو مقرر ہے اور تب تک دنیا کی چند روزہ زندگی ہے جس سے فائدہ اٹھا سلتے ہو۔ اگر اللہ ہی تم پر عذاب نازل کرنا چاہیں تو تمہیں کون بچا سکتا ہے یا رحم کرنا چاہے تو انہیں کوئی روک نہیں سکتا اور اللہ سے بھاگ کر نہ تو تمہیں کوئی مدد کرنے والا ملے گا اور نہ کوئی حمایت کرنے والا نصیب ہوگا۔ اللہ ان لوگوں سے باخبر ہے جو دوسروں کو بھی جہاد میں شمولیت سے روکتے ہیں اور اپنے متعلقین سے کہتے ہیں تم بھی جہاد کو چھوڑ کر ہمارے ساتھ آجاؤ اور کبھی اگر مجبور ہوجائیں تو جہاد میں بہت کم شرکت کرتے ہیں اور اس میں بھی انہیں مومنین کے ساتھ بخل اہتا ہے کہ زیادہ غنیمت نہ لے جائیں بلکہ انہیں زیادہ مال لینے کا طمع ہوتا ہے اگر جنگ کا موقع آجائے تو خوفزدہ ہوجاتے ہیں اور یوں لگتا ہے جیسے ان پر موت کی غشی طاری ہونے لگی ہو اور آنکھیں پھری جارہی ہوں اور جب مسلمانوں کو فتح نصیب ہوجائے اور خطرہ ٹل جائے تو پھر ان کی زبانیں بہت تیز ہوجاتی ہیں۔ صحابہ پہ طعن نفاق کی علامت ہے : اور صحابہ پر مخلص مسلمانوں پر طعن کرتے ہیں۔ یعنی آپ ﷺ کے ضاں نثاروں پہ طعن نفاق کی علامت ہے اور مال غنیمت پر ٹوٹ پڑتے ہیں۔ یہ لوگ ہرگز ایمان نہیں لائے۔ اگر ان سے کوئی بھلائی کا کام ہو بھی گیا ہو تو بوجہ نفاق اور کفر ضائع ہوگیا یہ سب کچھ اللہ پر بہت آسان ہے کہ وہ کسی کی اطاعت کا محتاج نہیں۔ جب کفار کی فوجیں بھاگ کر جاچکی ہیں تو بھی یہ خیال کرتے ہیں ایسا نہ ہوا ہوگا کہ اتنا بڑا لشکر کیسے شکست کھا سکتا ہے نیز اگر کافر پلٹ کر حملہ آور وہوں تو ان کی آرزو ہوگی کہ اس شہر ہی کو چھوڑ کر دور دیہات میں جا بسیں جہاں آنے والوں سے آپ لوگوں میں پھنس جائیں تو جنگ میں عملا بہت کم حصہ لیں۔
Top