Asrar-ut-Tanzil - Al-Maaida : 57
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَتَّخِذُوا الَّذِیْنَ اتَّخَذُوْا دِیْنَكُمْ هُزُوًا وَّ لَعِبًا مِّنَ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْكِتٰبَ مِنْ قَبْلِكُمْ وَ الْكُفَّارَ اَوْلِیَآءَ١ۚ وَ اتَّقُوا اللّٰهَ اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ
يٰٓاَيُّھَا : اے الَّذِيْنَ : جو لوگ اٰمَنُوْا : ایمان لائے (ایمان والے) لَا تَتَّخِذُوا : نہ بناؤ الَّذِيْنَ اتَّخَذُوْا : جو لوگ ٹھہراتے ہیں دِيْنَكُمْ : تمہارا دین هُزُوًا : ایک مذاق وَّلَعِبًا : اور کھیل مِّنَ : سے الَّذِيْنَ : وہ لوگ۔ جو اُوْتُوا الْكِتٰبَ : کتاب دئیے گئے مِنْ قَبْلِكُمْ : تم سے قبل وَالْكُفَّارَ : اور کافر اَوْلِيَآءَ : دوست وَاتَّقُوا : اور ڈرو اللّٰهَ : اللہ اِنْ كُنْتُمْ : اگر تم ہو مُّؤْمِنِيْنَ : ایمان والے
اے ایمان والو ! ان لوگوں سے دوستی نہ کرو جو تمہارے دین کا مذاق اڑاتے ہیں اور کھیل سمجھتے ہیں ان میں سے جن کو تم سے پہلے کتاب دی گئی اور کافروں میں سے اور اگر تم ایمان رکھتے ہو تو اللہ سے ڈرو
رکوع نمبر 9 ۔ آیات 57 ۔ تا ۔ 66: اسرار و معارف : خصوصاً یہودی ہوں یا نصرانی یا ایسے لوگ جو دین اسلامکا مذاق اڑاتے ہیں ایسے لوگوں سے ایماندار آدمی کو دوستی نہ زیب دیتی ہے اور نہ فائدہ نہ اس کے لائے جائز ہے بلکہ تقوی کے خلاف ہے یعنی وہ محبت بھرے جذبات جو ذات باری کے ساتھ نصیب ہوتے ہیں مجروح ہوجاتے ہیں۔ کیونکہ انہیں اس پر بڑا فخر ہے کہ ہمارے پاس آسمانی کتابیں ہیں حالانکہ یہ ان میں تبدیلی کرچکے ہیں اور شعائر اسلام کا مذاق اڑاتے ہیں جیسے اذان سن کر مذاق کرتے ہیں اس لیے کہ امور دینیہ میں ان کی عقل ماری گئی ہے بس پوری توجہ صرف حصول دنیا پہ ہے اور دین کو سمجھنے سے قاصر ہو رہے ہیں۔ آپ ان سے پوچھئے تو سہی آخر ہم سے کیوں خفا ہیں ؟ صرف اس بات پر کہ باوجود اس کے کہ ہم پہلی کتابوں پر بھی یقین و ایمان رکھتے ہیں ساتھ میں اس کتاب کو بھی مان لیا ہے جو ہم پر نازل ہوئی ہے بس آپ کی نگاہوں میں یہ جرم ٹھہرا بھی اگر اگلی کتابیں اللہ کی طرف سے نازل کی گئی تھیں اور ان پر ایمان لائے بغیر چارہ نہ تھا تو یہ کتاب جو ہم پر نازل ہورہی ہے اس کو چھوڑ دینے سے گزارہ کیسے ہوگا ۔ اور ہم پر یہ یہ فرد جرم لگا کر آپ خوش ہوگئے۔ چلئے ! آپ ہی بتائیں جن کتابوں کو آپ اللہ کی طرف سے مانتے ہیں ان پر کتنا عمل کرچکے ہیں ذرا اپنی قومی تاریخ دیکھیں اور اپنے ماضی پہ نظر کریں آپ کے اکثر فسق و فجور اور اللہ کی نافرمانیوں کی لمبی فہرست کے علاوہ کچھ ہاتھ نہیں آئے گا۔ آپ ان سے فرمائیے کہ میں نشاندہی کروں بدکار کیسے لوگوں اور کیسی قوموں کو کہاجاتا ہے جن پر اللہ کی لعنت ہو اور رحمت سے مھروم ہوں یعنی توفیق اطاعت سلب ہوجائے اور جن لوگوں پر اللہ کا غضب ہو جن میں سے بعض کی ظاہری صورتیں تک مسخ کرکے بندر اور خنزیر بنا دئیے گئے اور بعض کی ظاہری صورتیں تک مسخ کرکے بندر اور خنزیر بنا دئیے گئے اور بعض کی روحانی اشکال مسخ ہوئیں اور وہ شیطان کی پجاری بن گئے اصلی بدبخت لوگ اور اقوام تو وہ تھیں جو تمہارے ہی اجداد تھے جن سے تم نے بھی رسومات حاصل کرلی ہیں اور ان پر فخر کرتے ہو اور اللہ کے نازل کردہ کلام سے مذاق کرتے ہو حالانکہ یہ لوگ درجہ کے اعتبار سے بہت ہی گرے اور نہایت ہی گمراہ قسم کے انسان تھے اور اب بھی یہ آپ کے پاس اظہار ایمان کے لیے آتے ہیں حالانکہ ان کے دلوں میں کفر ہوتا ہے اور وہی کفر ساتھ لے کے چلے جاتے ہیں اللہ کریم ان باتوں کو خوب جانتے ہیں جن کو یہ چھپانا چاہتے ہیں یعنی منافقین کے بارے نبی اکرم ﷺ کو اکثر اور عموماً اطلاع فرما دی جاتی تھی بلکہ ایسے مواقع پر جب آیات نازل ہوتیں تو اکثر مسلمان مطلب اخذ کرلیتے تھے کہ کون لوگ آئے تھے اور یہ حکم کن لوگوں کے لیے ہے دوسری بات جو سامنے آئی وہ یہ ہے کہ جب تک دل میں خلوص نہ ہو نبی ﷺ سے فائدہ نہیں ہوتا کہ یہ لوگ دل میں کفر لے کر آتے اور کفر ہی لے کر چلے جاتے حالانکہ دوسرے خوش نصیب اسی بارگاہ سے کفر کا دامن دھو کر نور ایمان سے جھولیاں بھر کرلے جا تے تھے ان کے آنے میں خلوص بھی نہ ہوا تو پھر فائدے کی امید نہیں ہوسکتی ۔ اور اے مخاطب ! مسلسل گناہ انسان کی عادت ثانیہ بن جاتا ہے ان میں سے اکثر کو فناء فی الجرمپائیں گے یعنی جرائم ان کے مزاجوں میں رچ بس چکے ہیں گناہ ، ظلم و زیادتی اور حرام کھانے پہ یوں ٹوٹتے ہیں جیسے شمع پہ پروانہ گرتا ہے اور یہ بہت ہی ناروا کام ہے جو انہوں نے اختیار کیا ہے اگر بدکاروں کی مجلس اور مسلسل گناہ انسان کے مزاج کو اپنے رنگ میں ڈھال لیتا ہے۔ تو نیک لوگوں کی مجلس اور مسلسل اللہ کا ذکر اور شیخ کی توجہ کیا یہ مزاج انسانی میں تبدیلی نہیں کرسکتے ؟ بلکہ وہاں دو عوامل ہیں صحبت بدکار اور عمل بد ، یہاں تین ہیں نیکوں کی مجلس ، نیک کام اور شیخ کی توجہ اور یہ تیسرا عمل سب سے زیادہ طاقتور ہے اسی لیے ارشاد ہوتا ہے کہ ان کے مشائخ اور علماء ربانی انہیں کیوں نہیں روکتے حالانکہ انہیں روکنا چاہئے یا علماء کیوں منع نہیں کرتے یہ مشائخ اور علماء معاشرے میں دو بہت بڑے کردار ہیں۔ اگر یہ خلوص سے معاشرے کی درستی چاہیں تو حکمرانوں سے زیادہ قوت ان کے پاس ہوتی ہے ہر پیر کے مرید اس کی بات کو حرف آخر اور ہر مولوی کے مقتدی اسی کی بات کو سند مانتے ہیں یہ بارہا تجربہ کیا ہے کہ لاکھ حوالے دو تفسیر اور حدیث سے حوالے دو اگر ان کے محلے کا مولوی نہ مانے تو بات نہیں بنے گی یا پیر صاحب نہ مانیں پھر تو آپ کے پاس کوئی بھی علاج نہیں تو یہ علماء اور مشائخ انہیں حرام کھانے سے اور گناہ کی زندگی سے کیوں نہیں روکتے یعنی معاشرے کی اصلاح کی ذمہ داری ان پر ہے اور اگر صرف نذرانے وصول ہوتے رہے اور کیا کچھ نہیں یا اس ڈر سے لوگوں کی اصلاح نہ کی کہ پھر اپنی آمدن بھی نہ رہے تو عنداللہ جواب دینے کے لیے ان کے پاس بھی کوئی معقول بات نہ ہوگی یہ اگر دنیا کمانے کے لالچ میں لوگوں کا دین تباہ کر رہے ہیں تو بہت ہی برا کر رہے ہیں۔ اور یہود تو کہتے ہیں کہ اللہ کے خزانے ختم ہو رہے ہیں۔ یہ بھی ان نے نظام زکوۃ کا اور صدقات نافلہ کا مذاق اڑایا کہ اب لوگوں کو دینے کے لئے کہا جاتا ہے جب اللہ کا رسول ہے تو اللہ سے لے کر دے کیا اللہ خزانے ختم ہوگئے یا اللہ کے ہاتھ باندھ دئیے گئے ہیں فرمایا ہاتھ بھی انہی کے بندھیں گے چناچہ رسوا ہو کر ملک بدر کئے گئے کچھ قتل ہو کر تباہ ہوئے اور یہ گستاخانہ کلمہ جو انہوں نے کہا ہے اس کے لیے ان پر لعنت کی گئی یعنی رحمت سے محروم ہوگئے روحانی برکات سے بھی کہ اسلام قبول کرنا نصیب نہ ہوا اور دنیاوی برکات سے بھی کہ گھر برباد ہوئے اور قتل ہو کر تباہ ہوئے یا دیس بدر کئے گئے فرمایا اب انہیں اندازہ ہوگا کہ اللہ کے ہاتھ کھلے ہیں کہ بدکار اپنی روش میں اور اپنے زور میں بھاگتا چلا جاتا ہے مگر جب اللہ کی گرفت میں آتا ہے تو اسے پتہ چلتا ہے کہ وہ کس قدر بھول رہا تھا پھر بھی کوئی خوش قسمت ہو تو توبہ نصیب ہوجائے ورنہ عذاب میں گرفتار ہو کر ہی تباہ ہوجاتے ہیں یہی حال ان کا ہے دیکھ چکے ہیں کہ سارے عرب کا کفر مل کر کچھ نہیں بگاڑ سکا پھر دن بدن مسلمان دنیا میں بھی اور روحانی کمالات میں بھی ترقی کی راہ پر ہیں اس کے باوجود انہیں ایمان نصیب نہیں ہوتا بلکہ شرارت بغاوت کفر میں بڑھتے ہی جا رہے ہیں۔ لیکن اللہ نے بطور سزا یہود اور نصاری کے اندر بھی لڑائی ڈال دی ہے اور ان کی یہ دشمنی بھی قیامت تک چلے گی جب تک عالم قائم ہے ایک دوسرے سے نفرت اور بغاوت کرتے ہی رہیں گے کہ یہ مل کر مسلمانوں کے خلاف محاذ قائم نہ کرسکیں یہ سازشیں کرکے لڑائی کی آگ سلگاتے ہیں اللہ کریم اسے بجھا دیتے ہیں۔ یعنی ان میں یہ جرات نہیں کہ خود میدان میں اتریں آپس میں اتحاد نہیں کرسکتے پھر سازش کرتے ہیں تو اللہ بےنقاب فرمادیتے ہیں اور یہ جو جنگ بھڑکانا چاہتے تھے۔ اس میں ناکام ہوجاتے ہیں اس لئے کہ یہ ہمیشہ فساد کے لیے کوشاں رہتے ہیں اور اللہ کو فساد کرنے والے لوگ اچھے نہیں لگتے اگر یہ اہل کتاب بھی جب تک ان کی کتاب ہی دین حق تھی۔ اسی کے مطابق عقیدہ درست کرتے اور اللہ کا خوف کرکے اس سے حیاء کرکے اس کی اطاعت اختیار کرتے تو ہم ان کی خطاؤں سے درگذر فرماتے اور انہیں جنت میں اور اس کی نعمتوں میں داخل کرتے ہم انہیں بندر اور سور بنا کر ہلاک نہ کرتے اگر یہ تورات کے احکام قائم رکھتے پھر جب انجیل نازل ہوئی تو اس پہ ایمان لاتے اللہ کے نبی کی اطاعت کرتے اور جب اللہ کی طرف سے قرآن نازل ہوا تو پھر تورات و انجیل میں بھی تو اس کی خبر موجود تھی ان پر بھی عمل کرتے تو اس پر ایمان لاتے آپ پر ایمان لاتے اس کے احکام کو قبول کرتے تو ہم ان پر دنیا کی نعمتیں بھی عام کردیتے کہ آسمان سے پانی برستا اور زمین سے خزانے پیدا کرتے یعنی نیکی اور عمل صالح اکثر دنیا میں بھی آرام اور سہولت کا سبب ہی بنتا ہے سوائے اس کے کہ اللہ کی طرف سے کوئی آزمائش آجائے یا انسان خطاکار ہے غلطیاں بھی تو کرتا ہے بیشک ان میں کچھ لوگ نیک بھی ہیں مگر اکثریت بدکاروں کی ہے۔ جو چند نیک ہستیاں موجود تھیں انہیں اسلام اور آپ ﷺ کی صحابیت نصیب ہوگئی اور بدکار ابھی تک نسل در نسل تباہی کا شکار ہیں۔
Top