بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Asrar-ut-Tanzil - An-Najm : 1
وَ النَّجْمِ اِذَا هَوٰىۙ
وَالنَّجْمِ : قسم ہے تارے کی اِذَا هَوٰى : جب وہ گرا
ستارے کی قسم جب وہ غائب ہونے لگے
آیات 1 تا 25۔ اسرار ومعارف۔ قسم ہے ستارے کی جب وہ غروب ہونے لگے یعنی ستاروں کا اپنے اپنے مقررہ راستوں پر وقت غروب تک ایسے چلنا کہ لوگ ان سے راستہ پاتے ہیں اس بات پر گواہ ہے کہ جس رب کے ستارے تک نہیں بھٹکتے بھلا ا اس کا رسول کیسے بھٹک سکتا ہے اور یہ تو تمہارے درمیان بسنے والی ہستی ہے وہ ہستی جس کا ساراوقت تمہارے ساتھ بسراہو اور جس کی صداقت وامانت کے تم خود گواہ ہو۔ صاحبکم۔ اور دوسری نعمت صاحبکم میں یہ رکھی ہے کہ آپ کا دامن شفقت تو سب کے لیے پھیلا ہوا ہے آپ کی برکات سے وہی بےنصیب محروم ہے جو خود کو الگ کرلے کہ یہ ہستی ہمیشہ صراط مستقیم کی ضامن ہے۔ آپ نہ کبھی راہ حق سے بھولے کہ غلطی سے بھٹک جائیں اور نہ کبھی بھٹکنے کے غلط راستے کو صحیح جان لیں بلکہ یہ تو وہ ہستی ہے جو اپنی خواہش سے کلام تک نہیں فرماتی صرف وہ فرماتی ہے جو اللہ کی طرف سے وحی کیا جائے۔ اقسام وحی۔ وحی کی تین اقسام ہیں قرآن کریم۔ حدیث پاک۔ اور سنت اور کبھی کوئی قاعدہ بتادیاجاتا ہے جس میں نبی (علیہ السلام) اجتہاد فرما کر فیصلہ فرماتے پہلی دو صورتیں توقطعی ہوگئیں رہا اجتہاد تو اس میں نبی کو غلطی لگنے کا احتمال ہوتا ہے مگر فورا بذریعہ وحی اصلاح کردی جاتی ہے لہذا اس کا شبہ بھی رہا ہاں مجتہد کو غلطی کا امکان ہے مگر اس پر بھی اسے اجر ملنے کا وعدہ ہے کہ دینی کام میں محنت کرکے خلوص کی ساتھ ایک فیصلہ تک پہنچا اور وحی لانے والے میں بھی کسی کوتاہی یا کسی شیطانی مداخلت کا امکان نہیں کہ آپ تک وحی لانے والا فرشتہ بہت قوت کا مالک اور ایسا طاقتور ہے کہ نہ تو اللہ کی وحی میں بھولتا ہے نہ کوئی اسے بھلاسکتا ہے اور نہ شیطان اس کے قریب پھٹک سکتا ہے نیز آپ کا اس سے رابطہ بھی کوئی محض خیالی نہیں بلکہ آپ نے اسے اس کی اصلی صورت پر بھی دیکھا جب وہ افق اعلی پر بیٹھا ہوا تھا۔ جبرائیل (علیہ السلام) کودیکھنا۔ اس کا ذکر حدیث شریف میں ہے آپ مکہ میں کہی تشریف لے جا رہے تھے کہ آپ نے دیکھا جبرائیل امین کرسی پر بیٹھے ہیں اور آسمان تک فضا کو ان کے وجود نے بھردیا ہے یہ ان کی اصلی صورت تھی ورنہ توہروحی کے وقت وہ شرف ملاقات پاتے تھے پھر اور قریب ہوئے اپنی جگہ سے نیچے آئے اور دوکمان کے فاصلے پر یا اس سے بھی کم پر آگئے کہ روایات میں ملتا ہے کہ پھر جبرائیل امین انسانی شکل میں آپ کے پاس حاضر ہوئے اور آپ کی خدمت میں اقرار کیا جیسے عرب دوستی کا اقرار کرنے کے لیے اپنی کمانیں آگے کردیتے کہ ان کی تانت مل جاتے وہ محاورہ استعمال ہوا اور یوں رب جلیل نے اس مضبوط اور طاقتور فرشتے کے ذریعے جسے نبی (علیہ السلام) کی خدمت عالی میں بھی ایک مقام قرب حاصل تھا اپنی وحی جو پہنچانا چاہتا تھا اپنے رسول تک پہنچائی ۔ یہ دیکھنا سر کی آنکھوں سے تھا۔ اور پھر آپ نے دیکھا آپ کے قلب اطہر نے بھی اس کی تصدیق کی یعنی آپ نے آنکھوں سے دیکھا اور دل نے بھی تصدیق فرمائی تو تم لوگ اس بات پر آپ سے جھگڑتے ہو جس کو آپ نے اتنے مضبوط طریقے سے مشاہدہ فرمایا ہے اور آپ نے دوسری بار جبرائیل امین کو ان کی اصلی صورت پر شب معراج دیکھا سدرۃ المنتہی کے پاس اترتے ہوئے۔ سدرۃ المنتہی۔ حدیث شریف کے مطابق یہ بیری کا درخت ہے جس کی جڑ چھٹے آسمان پر اور شاخیں ساتویں آسمان پر ہیں اور اس پر ملائکہ کے دفاتر ہیں کہ عالم بالا سے نازل ہونے والے احکام یہاں پہنچ کر متعلقہ فرشتوں کو تقسیم ہوتے ہیں اور زمین سے جانے والے اعمال یہاں پہنچ کر عالم بالا کو جاتے ہیں جس کے پاس جنت ہے جو اللہ کے بندوں کا گھر ہے ۔ جنت و دوزخ۔ جنت و دوزخ فی الوقت موجود ہیں اور مفسرین کرام کے مطابق ساتواں آسمان فرش اور عرش عظیم جنت کی چھت ہے اور آثار میں ہے کہ دوزخ زمین کے اندر موجود ہے جس کو ایک سخت غلاف نے ڈھانپ رکھا ہے روز حشر پھٹے گا توسمندوں کوکھولاکربھانپ بنادے گا (واللہ اعلم بحقیقۃ ھالہ) جب سدرہ کو بیشمار ملائکہ نے ڈھانپ رکھا تھا حدیث شریف کے مطابق جو سب آپ کے استقبال کو حاضر ہوئے تھے اور پھر اس سے آگے جہاں تک اللہ نے چاہا لے گیا اور جو چاہا دکھایا ۔ دیدار باری تعالی۔ اور جو کچھ بھی دیکھا حضور اکرم نے صحیح صحیح دیکھا نہ آپ کی نگاہ بھٹکی کہ کسی اور طرف دیکھنے لگے اور نہ یہ ہوا کہ حد سے بڑھ جائے اس میں دو آراء ہیں یہ کہ سب جبرائیل امین کی زیارت کی بات ہورہی ہے یا دیدار الٰہی کی فقیر کی دانست میں جو بات رازمذش قرآن حکیم سے بےغبار سمجھ میں آتی ہے وہ سدرۃ المنتہی تک بات جبرائیل امین کی ہے اور سدرہ کے بعد واقع معراج شریف اور دیدار باری تعالیٰ کا واقعہ ارشاد ہوا ہے یوں تو ذات باری ہر آن ہرجاموجود ہے انسان کی نظر دیکھنے سے عاری ہے اور جمہور کا اتفاق ہے کہ آخرت میں نگاہ قوی ہوکردیکھنے کے لائق ہوگی اور اہل جنت کو زیارت باری نصیب ہوگی جبکہ یہاں جنت سدرۃ المنتہی کے پاس رہ گئی اور آپ کن بلندیوں اور قرب کی کن منزلوں میں تشریف لے گئے یہاں زیارت باری میں کوئی مانع نہیں اور نگاہ مصطفیٰ پھر نگاہ مصطفیٰ ہے آپ کی شان کہ آپ وجود یاجود کے ساتھ تشریف لے گئے اور بچشم سردیدار فرمایا ورنہ نگاہ قلب سے تجلیات باری تعالیٰ تو صدیوں بعد بھی آپ کے غلاموں اور اہل اللہ کو بھی نصیب ہوتی ہیں اور ذات باری تعالیٰ بھی محدود نہیں ہر کوئی اپنی شان کے مطابق دیکھے گا لہذا آپ نے اپنی شان کے لائق دیکھا اور پھر اپنے رب عظیم کی بیشمار نشانیاں ملاحظہ فرمائیں۔ برزخ اس کے حالات عذاب وثواب اور جنت دوزخ سب حقیقتیں ذاتی طور پر تشریف لے جاکردیکھیں سبحان اللہ وبحمدہ۔ تفاسیر میں بہت وضاحت سے سب واقعات درج ہیں یہاں مختصرا لکھا گیا ہے اے کفار تم نے بھی لات وعزی اور تیسرے بڑے بت مناۃ کی حقیقت جاننے کی کوشش کی ہے کبھی ان کے بارے میں تحقیق وتصدیق کا تکلف کیا ہے اگر کرتے تو ان کی حقیقت جان کر انہیں چھوڑ دیتے۔ بھلایہ تمہارا دین ہے کہ تمہارے لیے بیٹے ہوں اور اللہ کو بیٹیاں ملیں یہ تو عقلا بھی تقسیم ہی بہت نامناسب ہے جبکہ اس کی کوئی بنیاد نہیں اللہ ان باتوں سے پاک ہے اور یہ صرف تم نے کہانیاں گھڑ رکھی ہیں اور کچھ نام ہیں جو تم لوگوں نے رکھ لیے ہیں اور تمہارے باپ دادا بھی اسی گمراہی میں تباہ ہوئے اللہ نے ان باتوں پر کوئی دلیل نازل نہیں فرمائی تم لوگ محض اپنے لیے بےبنیاد گمان اور وہم کی پیروی کرتے ہو اور اپنی خواہشات نفس کی غلامی کے علاوہ تمہارے پاس کچھ نہیں حالانکہ اللہ ایسا کریم ہے کہ اس نے تمہارے پاس بھی ہدایت کا سامان اپنا نبی اور اپنی کتاب بھیجی ہے اور ایسے لوگوں کو بھی محروم نہیں رکھا اور اگر آدمی خواہشات کے ہی پیچھے لگے تو دین سے محروم تو ہوگا کہ نظام قدرت میں تو وہ ہوتا ہے جو اللہ چاہے بھلا انسان کی ہر خواہش تو پوری ہونے سے رہی کہ نظام اس کی خواہشات کے تابع نہیں اور دنیا ہو یا آخرت سب کچھ اللہ ہی کے تابع اور اس کے حکم کا پابند ہے لہذا انسان بھی تب ہی ہدایت پاسکتا ہے جب اپنی خواہشات کی بجائے اس کے احکام کو اختیار کرے۔
Top