Asrar-ut-Tanzil - An-Najm : 33
اَفَرَءَیْتَ الَّذِیْ تَوَلّٰىۙ
اَفَرَءَيْتَ : کیا بھلا دیکھا تم نے الَّذِيْ تَوَلّٰى : اس شخص کو جو منہ موڑ گیا
کیا آپ نے اس شخص کو دیکھا جس نے منہ پھیرلیا
آیات 33 تا 62۔ اسرار ومعارف۔ ایسے لوگ جسے آپ دیکھا جس نے دین حق سے منہ پھیرلیا اور کچھ تھوڑا بہت مال خرچ کرکے پھر اس سے بھی بہت سختی سے رک گیا اس طرح مال دے کر عذاب سے بچ جائے گا عجیب رسم کہ تھوڑا سامال عذاب سے بچ جائے گا۔ اہل مکہ میں سے ایک شخص ایمان لایا تو کسی دوسرے مشرک نے ملامت کی کہا عذاب سے ڈرتا ہوں اس نے کہا مجھے کچھ دوتو تمہارا عذاب میں اپنے سرلیتا ہوں اور تم اسلام چھوڑ دو ۔ اس معاملے میں بھی اس نے تھوڑا بہت دیایوں سمجھ بیٹھا کہ اب میں فارغ ہوں آج کے دور میں لوگوں نے اسلام کا دعوی کرکے اس رسم کو اپنارکھا ہے کہ عملی زندگی میں فرائض چھوڑ دیے سودلے کر کھاتے ہیں اور کبھی کوئی دیگ پکادی یا سال بعد نام نہاد پیروں کو نذرانہ دے دیایا کسی مزار پر چڑھاوا چڑھاکرفارغ ہوگئے اور یوں سمجھا کہ اب مجھے کسی بات کی فکر نہیں۔ ارشاد ہوتا ہے کہ کیا ایسے آدمی کے پاس علم غیب ہے کہ اس نے نتائج کو دیکھ رکھا ہے یا اسے صحف موسیٰ اور پہلی منزل من اللہ کتابوں کا علم بھی نہیں پہنچا اور حضرت ابراہیم کی بات بھی نہیں سنی کہ انہوں نے کس طرح اپنے رب سے کیا ہوا وعدہ اطاعت وفا کیا ، سب پہلے ادیان کا حاصل بھی یہی ہے اور آپ بھی بتا رہے ہیں کہ کوئی دوسرا کسی دوسرے کا بوجھ نہ اٹھائے گا اور ہر آدمی کو اس کے اپنے عمل اور اپنی محنت کا پھل ملے گا اور ہر آدمی کی محنت بہت جلد دیکھی جائے گی ہر انسان کا عمل سامنے آجائے گا اور اس کے مطابق اسے پورا پورا بدلہ دیاجائے گا۔ ایصال ثواب۔ یہاں یہ نہ سمجھا کہ ایصال ثواب درست نہیں بلکہ یہ سلسلہ شفاعت کی طرح سے ہے کہ کسی کی سفارش کام نہ آئے گی ہاں مگر جن لوگوں کے لیے اللہ نے اجازت دی ہویہاں بھی جمہور کے نزدیک نفلی عبادات کا ثواب کسی کو بھی دیاجاسکتا ہے مگر شرط وہی ہے کہ محل شفاعت ہو یعنی وہ مومن ہو جبکہ یہ شخص جو سرے سے اسلام کی تعلیمات اور عقائد ونظریات سے لے کر فرائض وواجبات تک کو غیرضروری جان کرچھوربیٹھتا ہے یہ تو مسلمان بھی نہ رہا اس کی شفاعت کیسی۔ بالآخر سب بات عظمت پروردگار پر ہی ختم ہوتی ہے تمام امور کی تحقیق کی جائے یا انسان کے تمام علوم کی حد بھی ، انجام کار اللہ کی ذات پر ہی پہنچ کر ختم ہوتی ہے اور پتہ چل جاتا ہے کہ یقینا سب خوشی اور غم اسی کی طرف سے ہے کسی کو ہنسی نصیب ہو تو اس کے اسباب بھی وہی پیدا کرتا ہے اور اگر کوئی دکھی ہوکرروتا ہے تورونے کے اسباب بھی اللہ رب العزت ک پیدا کردہ ہیں کہ وہی حیات آفرین ہے زندگی عطا کرتا ہے اور موت بھی دیتا ہے وہ ا ایساقادر ہے کہ اس نے نرومادہ کے جوڑے بنادیے محض نطفہ سے جب وہ رحم میں ڈالاجاتا ہے یعنی کوئی نہیں کہ وہاں بنارہا ہے اسوائے اللہ کے وہ ایساقادر ہے کہ جو پیدا کرنا چاہے نریامادہ اسی کے مطابق نفطہ کو ملاتا ہے اور پروان چڑھا کر بنادیتا ہے یہ بجائے خود بہت بڑی دلیل ہے ذرات سے پھر دوبارہ زندہ کردے گ اور ایساضرور ہونے والا ہے لہذا لوگوں کو راست بازی سے اطاعت کرنا ضروری ہے کہ حیلے حوالے سے نہ چلیں گے۔ اگر کسی کے پاس دولت کے خزانے بھی ہوں تو وہ سرمایہ اسے اللہ نے ہی دیا ہے نہ یہ کہ سرمائے سے وہ اس کے فیصلوں کو خرید لے گا اور شعری ستارہ جسے مشرک معبود سمجھ بیٹھے ہیں بھی اس کی مخلوق ہے اور وہی اس کا بنانے اور باقی رکھنے والا ہے یعنی معبودان باطلہ خود اس کی مخلوق اور محتاج ہیں اس کے مقابلے پہ کام نہ آئیں گے۔ نافرمانی کا انجام دنیا میں بھی تباہی کی صورت ہی ظاہر ہوا اور آخرت میں تو ہے ہی دنیا میں اس عاد اولی کو ہلاک کردیا اور پھر ثمود کو ان کی نافرمانی پہ ایسا تباہ کیا کہ کچھ بھی باقی نہ بچا جو مشرکین حال سے بہت طاقتور اور مالدار قومیں تھیں نہ ان کا مال عذاب سے بچا سکا نہ طاقت وتدبیر کام آئی اور نوح (علیہ السلام) کی قوم کا حال دیکھ لیں کہ ساڑھے نوسوسال مہلت ملی تبلیغ سنتے رہے اور مان کر نہ دیاپھروہ بھی تباہ ہوگئے اور بستیوں والے یعنی لوط (علیہ السلام) کی قوم جن کی بستیاں ہی الٹا کرپٹخ دی گئیں ، اور ان پر پتھروں کی بارش نے بستیاں الٹنے قبل انہیں دفن کردیا تھا ان سب واقعات میں غورکرو تو تمہیں صداقت رسول واضح ہوجائے اور جان لو کہ یہ نعمت عظمی ہے اور اس کے طفیل تم پر بیشمار نعمتیں ہیں کہ جان مال اولاد سب بچا ہوا ہے ورنہ ان قوموں کی طرح ہلاک کردیے جاتے پھر بھلا ان نعمتوں کا انکار کیوں کرتے ہو آپ بھی پہلے انبیاء (علیہ السلام) کی طرح اعمال کے نتائج سے بروقت آگاہ فرمانے والے ہیں اور قیامت تو سر پر کھڑی ہے جسے اللہ کے سوا کوئی بھی نہیں روک کر رکھے کہ یہ آخری امت ہے اور اس کے بعد قیامت کب تک یہ اللہ کے دست قدرت میں جب تک وہ لوگوں کو مہلت دے ورنہ کوئی نہیں جو اسے روکے گا تمہیں ان باتوں میں حیرت ہوتی ہے اور قرآن حکیم کے حقائق پر غور کرکے اپنے کردار کو دیکھ کر روتے نہیں بلکہ اس کا مذاق اڑاتے ہو اور غفلت میں ڈوبے ہوئے ہو اور راگ رنگ میں محو ہو حق تو یہ ہے کہ پورے خلوص اور خشوع خضوع کے ساتھ اللہ کی بارگاہ میں سجدہ ریز ہوجاؤ اسی کی عبادت کرو اور اس کی اطاعت کو شعار بناؤ ۔
Top