Asrar-ut-Tanzil - Al-A'raaf : 94
وَ مَاۤ اَرْسَلْنَا فِیْ قَرْیَةٍ مِّنْ نَّبِیٍّ اِلَّاۤ اَخَذْنَاۤ اَهْلَهَا بِالْبَاْسَآءِ وَ الضَّرَّآءِ لَعَلَّهُمْ یَضَّرَّعُوْنَ
وَ : اور مَآ اَرْسَلْنَا : بھیجا ہم نے فِيْ : میں قَرْيَةٍ : کسی بستی مِّنْ نَّبِيٍّ : کوئی نبی اِلَّآ : مگر اَخَذْنَآ : ہم نے پکڑا اَهْلَهَا : وہاں کے لوگ بِالْبَاْسَآءِ : سختی میں وَالضَّرَّآءِ : اور تکلیف لَعَلَّهُمْ : تاکہ وہ يَضَّرَّعُوْنَ : عاجزی کریں
اور ہم نے کسی بستی میں کوئی نبی نہیں بھیجا مگر یہ کہ وہاں کے بسنے والوں کو (ان کا انکار پر) محتاجی اور بیماری میں پکڑا تاکہ وہ ڈھیلے پڑجائیں
رکوع نمبر 12 ۔ آیات 94 تا 99 ۔ اسرار و معارف : اللہ رب العزت بہت ہی زیادہ کریم ہیں اس قدر کہ انسانی علوم اندازہ کرنے سے قاصر ہیں یہاں ارشاد ہوتا ہے کہ جب بھی اور جہاں بھی کوئی نبی مبعوث فرمایا وہاں انسانی ضروریات میں ایک خاص شدت بھی پیدا کردی لوگوں میں اعراض اور بیماریاں پیدا کردیں یا مالی نقصان سے دوچار کردیا کہ پریشان ہو کر اس کے حل کی تلاش میں نکلیں یا کسی ایسی ہستی کو تلاش کریں جو ان مصائب سے نجات دلا دے تو نبی کی دعوت سنیں اور کم از کم ذاتی غرض کے لیے ہی سہی میرے دروازے پہ تو آئیں یعنی ہدایت و گمراہی میں ایک راستہ اختیار کرنے ک امجاز تو انسان کو بنا دیا پھر بھی اس کی رحمت ایسے اسباب پیدا فرماتی رہتی ہے کہ انسان اپنے عجز سے اگاہ ہو کر اللہ کی بارگاہ کی طرف متوجہ ہو اور جیسے کوئی اس طرف متوجہ ہوتا ہے اس کی دستگیری فرمائی جاتی ہے۔ ان کا کرم پھر ان کا کرم ہے ان کے کرم کی بات نہ پوچھو۔ شانِ کریمی : لیکن اگر کوئی ! اس کے باوجود بھی متوجہ الی اللہ نہیں ہوتا تو پھر مصیبت ختم کردی جاتی ہے اور دکھ راحت سے بدل دیا جاتا ہے حتی کہ مہلت پا کر انسان خوب ترقی کرتا ہے مال و دولت میں یا اختیار واقتدار میں اور عظمت الہی یکسر بھول جاتا ہے کہتا ہے یہ تو زمانے کی عادت ہے صحت و بیماری یا غربت و امارت ہر زمانے میں ساتھ ساتھ رہی ہیں بھلا اس میں یک بد ہونے سے کیا فرق پڑتا ہے پہلے زمانے کے لوگ بھی تو انہیں حالات سے دو چار تھے یا پھر یہ سوچتا ہے کہ ہمارے آباؤ اجداد کے پاس یہ قابلیت نہ تھی جو ہمارے پاس ہے لہذا وہ مفلسی اور امراض کا شکار رہے اب ہم ترقی کرکے ایسی منزل پر پہنچ گئے ہیں کہ بیماری کا فوری علاج اور آرام کے بیشمار ذرائع۔ اسی ادھیڑ بن میں مصروف ہوتے ہیں کہ اچانک اللہ کے عذاب میں گرفتار ہوجاتے ہیں کبھی بصورت موت یا اور کبھی فسادات کی لپیٹ میں آ کر کبھی بارشوں سے سیلاب آجاتے ہیں تو کبھی خشک سالی تباہی کا باعث بننے لگتی ہے اور یوں اللہ کی عطمت سے نا آشنا دار آخرت کو سدھارتے ہیں۔ تقوی باعث نزول برکات ہے : اگر یہ لوگ ایمان قبول کرتے اور تقوی اختیار کرتے تو ہم ارض و سما سے ان پر نعمتوں کے دروازے کھول دیتے۔ تقوی کیا ہے غالباً پہلے بھی لکھا جا چکا ہے کہ تقوی دل کی ایک حالت اور کیفیت کا نام ہے جو فیضان نبوت سے نصیب ہوتی ہے اسی لیے تقوی سے پہلے ایمانکا ذکر ہے ایمان کی حقیقت نبی پر اعتماد اور اسی یقین و اعتماد کے طفیل قلب نبوت سے جو کیفیات سالک کے دل پر وارد ہوتی ہیں وہ اسے ایسی حالت عطا کردیتی ہیں کہ وہ ذات باری کو اپنے روبرو پاتا ہے اور نافرمانی کی جرات نہیں کرسکتا اگر یہ نعمت نصیب ہوجائے تو ارض و سما سے برکات کے دروازے کھل جاتے ہیں۔ برکت سے کیا مراد ہے : برکت کیا ہوتی ہے اس سے مراد ایسی فراوانی جس میں آرام و راحت بھی ہو۔ یہ مال اور جان میں بھی ہوتی ہے اور کام اور وقت میں بھی اور اس کی متعدد صورتیں ہوتی ہیں کبھی تو اصل چیز بڑھ جاتی ہے جیسے آپ ﷺ نے ایک برتن میں انگلیاں ڈبو دیں تو اس سے پورا قافلہ سیراب ہوگیا اونٹ اور گھوڑے تک حتی کہ پانی ذخیرہ کرنے والے مشکیزے بھی بھر لیے گئے یہ کبھی چیز تو اتنی ہی رہتی ہے مگر کام اتنا کرجاتی ہے جتنا اس سے چار گنا شے کرسکتی تھی کبھی ایک لقمہ پوری قوت عطا کردیتا ہے اور کبھی معمولی دوا بہت بڑی بیماری سے شفا کا باعث بن جاتی ہے یا تھوڑے سے وقت میں بہت زیادہ کام ہوسکتا ہے اور یہ سب باتیں اہل اللہ کی زندگیوں میں مشاہدہ کی جاسکتی ہیں۔ نیز زمینی اور آسمانی حالات کی موافقت بھی مراد ہے مثلاً ضرورت کے وقت پر اور ضرورت کے مطابق بارشوں کا ہونا فصلوں اور پھلوں کا صحیح اور مناسب ہونا موسمی حالات کا سازگار رہنا نیز اطمینان و سکون نصیب ہونا وغیرہ سب تقوی کے ثمرات ہیں اور اسی دلی کیفیت کو انبیا تقسیم فرماتے ہیں۔ پھر صحابہ اور پھر بعد میں آنے والے افراد میں ایسے ہی لوگ پہنچاتے ہیں جو پہلوں کی صحبت میں بیٹھ کر یہ نعمت حاصل کرتے ہیں۔ دولت مندی انعام بھی ہے اور سزا بھی : لیکن لوگوں نے انکار کی روش اپنائی تو اپنے اعمال کے نتائج میں گرفتار ہوگئے یعنی وقت کا دامن ہی تنگ ہوگیا بارشیں بےوقت اور باعث تکلیف بن گئیں باوجود مال و دولت کے اچھا کھانا نصیب ہی نہ رہا یا بیشمار دویات کھا کر بھی صحت نصیب نہ ہوئی۔ اسی طرح انصاف سے مھرومی اور مظالم کا شکار ہونا جہلا کا پیشوا اور حاکم کے طور پر مسلط ہوجانا یہ سب اور اس طرح کی موجودہ تکالیف کفار پر بوجہ انکار اور مسلمانوں پر نافرمانی کے سبب مسلط ہورہی ہیں یعنی یہ قانون قدرت ہے کہ تقوی پر آرام و راحت اور گناہ پر بےاطمینانی اور دکھ مرتب ہوتا ہے رہا یہ سوال کہ بدکاروں کو بھی دولت و اقتدار مل جاتا ہے اور نیکی پر بھی ارض و سما سے برکات کا ظہور ہوتا ہے تو کیسے پتہ چلے گا کہ یہ دولت مندی انعام ہے یا سز اعلمائے حق نے بڑی آسان سی پہچان بتائی ہے کہ ہر وہ صورت جس کے ساتھ اللہ کی یاد اور اطاعت نصیب ہو انعام ہے دولت مندی ہو یا افلاس اور ہر وہ حالت جس میں گناہ اور نافرمانی میں گرفتار ہو سزا ہے خواہ حکومت و سلطنت ہی مل جائے نیز انعام کے ساتھ سکون قلبی نصیب ہوتا ہے اور سزا سے دل ویران ہوتا ہے۔ حیرت ہے انسان کس قدر غفلت کا شکار ہے۔ اپنے سے پہلے لوگوں کے حالات جاننے کے باوجود نہیں سوچتے کہ نافرمانی تو تباہی کو دعوت دینا ہے اور ممکن ہے یہ رات کو سو رہے ہوں کہ عذاب الہی کی لپیٹ میں آجائیں یاں دن کے کاروبار اور دوڑ دھوپ میں مصروف ہوں کہ تباہ ہوجائیں کیا ان نتائج سے بےفکر ہوچکے ہیں جو اللہ نے اعمال کے ساتھ مقرر فرم ادئیے ہیں کہ اطاعت باعث برکت ہے اور نافرمانی باعث ہلاکت۔ یاد رکھو ان نتائج سے بےفکر ہونے والے سخت نقصان میں رہتے ہیں۔
Top