Asrar-ut-Tanzil - Al-Anfaal : 11
اِذْ یُغَشِّیْكُمُ النُّعَاسَ اَمَنَةً مِّنْهُ وَ یُنَزِّلُ عَلَیْكُمْ مِّنَ السَّمَآءِ مَآءً لِّیُطَهِّرَكُمْ بِهٖ وَ یُذْهِبَ عَنْكُمْ رِجْزَ الشَّیْطٰنِ وَ لِیَرْبِطَ عَلٰى قُلُوْبِكُمْ وَ یُثَبِّتَ بِهِ الْاَقْدَامَؕ
اِذْ : جب يُغَشِّيْكُمُ : تمہیں ڈھانپ لیا (طاری کردی) النُّعَاسَ : اونگھ اَمَنَةً : تسکین مِّنْهُ : اس سے وَيُنَزِّلُ : اور اتارا اس نے عَلَيْكُمْ : تم پر مِّنَ : سے السَّمَآءِ : آسمان مَآءً : پانی لِّيُطَهِّرَكُمْ : تاکہ پاک کردے تمہیں بِهٖ : اس سے وَيُذْهِبَ : اور دور کردے عَنْكُمْ : تم سے رِجْزَ : پلیدی (ناپاکی) الشَّيْطٰنِ : شیطان وَلِيَرْبِطَ : اور تاکہ باندھ دے (مضبوط کردے) عَلٰي : پر قُلُوْبِكُمْ : تمارے دل وَيُثَبِّتَ : اور جمادے بِهِ : اس سے الْاَقْدَامَ : قدم
جب وہ (اللہ) تم پر اونگھ کو طاری کر رہے تھے اپنی طرف سے چین دینے کے لئے اور تم پر آسمان سے (اوپر سے) پانی برسا رہے تھے تاکہ اس کے ساتھ تم کو پاک کردیں اور تم سے شیطانی وسوسہ کو دور کردیں اور تاکہ تمہارے دلوں کو (رابطہ سے) مضبوط کردیں اور اس سے (تمہارے) پاؤں جما دیں۔
آیات 11 تا 19 اسرار و معارف مزید انعامات یہ کہ مقام بدر میں مشرکین نے ایسی جگہ قبضہ کرلیا جو اونچائی پر تھی اور نسبتا مضبوط زمین تھی اور مسلمانوں کو ایسی جگہ ٹھہرناپڑاجونشیبی تھی حضرت حباب بن منذر ؓ نے عرض کیا کہ یا رسول ﷺ اللہ اگر یہ جگہ پر قبضہ کرلیا جائے چناچہ آپ ﷺ کے حکم سے ایسا ہی کیا گیا اور پھر حضرت سعدبن معا ؓ ذ کے مشورہ سے ایک طرف ذرابلند ی پر آپ ﷺ کے لیے ایک چھونپڑی سی بنادی گئی جس میں صرف صدیق اکبر ؓ کو شرف حضوری حاصل تھا اور حضرت معاذ ؓ دروازہ پر بہرہ دے رہے تھے۔ یہ بدر کی پہلی شب تھی دونوں لشکروں کا دن اس طرح بسرہوارات کفاراونچی اور مضبوط زمین پر تھے اور مسلمان نشیبی زمین پر جس پر ریت بھری تھی اور پاؤں دھنس جاتے تھے کچھ لوگوں کو رات غسل کی ضرورت پیش آگئی تو اب اس قدروافرپانی بھی نہ تھا تو رب جلیل نے اپنی قدرکاملہ سے سب اہتمام فرمائے اول کہ ایک ایسی اونگھ سب پر بھیج دی جس سے اطمینان و سکون نصیب ہوا اور اس سے مراد وہ حالت ہے جو مقامات بالا سے ربط قائم ہونے پروار دہوتی ہے یہ بظاہرنیند ہوتی ہے لیکن نیند ہوتی ہے لیکن نیند نہیں ہوتی کہ آدمی کے ۔ اونگھ سے مرادحواس بیدارہوتے ہیں اور سب کچھ سمجھ رہا ہوتا ہے اسے جذب بھی کہہ دیا جاتا ہے ایسی حالت ہے جوا للہ کریم کی طرف مکمل توجہ سے نصیب ہوتی ہے ورنہ عام نیندتو کمزوری کا باعث ہے کسی فضیلت کا سبب نہین دوسری صورت یہ پیدافرمائی کہ رات بارش برسی جس سے کفار کے لشکر میں دلدل اور کیچڑبن گیا کہ وہاں مٹی ایسی تھی اور جہاں مسلمان تھے وہاں پانی کے سبب ریت ہموار ہو کر جم گئی تھی ان کا کام بھی آسان ہوگیا اور شیطانی نجاست یعنی احتلام سے پاک ہونے کا موقع نصیب ہوا۔ تیسراکرم ربطہ قلبی تھا جو سب کو نصیب ہوا۔ یہ لفظ سورة کہف میں بھی گذرا ہے اصطلاع صوفیہ میں رابطہ سے مرادوہ حالت ہے کہ دل میں ذکر الٰہی سے جو نورپیدا ہو وہ عرش عظیم تک رسائی حاصل کرلے اور جب کسی قلب کو توجہ نصیب ہوتی ہے اور اسے ذکر دوام کانورنصیب ہوتا ہے تو وہ نوراوپر ہی اوپر اٹھتا چلاتا ہے یہاں تک کہ قلب اللہ کہے تو روشنی عرش عظیم تک پہنچتی ہے یہ حال رابطہ کا کام دیتی ہے جو مضبوط ترین صورت ہے اور یہی اعلیٰ ترین صورت اصحاب بدر ؓ کو نصیب ہوئی اور یہ ایسی دولت تھی کہ اب اس کے بعد قدم اکھڑنے کا سوال ہی پیدانہ ہوتا تھا لہٰذا ارشاد فرمایا کہ یہ نعمت رابطہ تمہیں ثابت قدمی عطا کرنے کے لیے نازل فرمائی۔ اور اس کے ساتھ مزید انعام فرمایا کہ فرشتوں کو حکم دیا کہ میری تائید تمہیں نصیب ہے میں تمہارے ساتھ ہوں تم بھی مسلمانوں کے قلوب پر ایساتصرف کرو ایسے انورات القاکرو کہ وہ ثابت قدم رہیں اور میں اپنی پدرت کاملہ سے کفار کے دلوں میں رعب ڈال دوں گا۔ تم ان کی گردنیں اڑادو اور ایسی ضرب لگاؤکہ ان کے پورپور سے درد اٹھے۔ عذاب الٰہی کی یہی خصوصیت ہے کہ جسم کے کسی حصے کو چھوجائے سارابدن متاثرہوتا ہے جیسے جہنم کی آگ کہ جسم کو چھوئے گی تو دل تک اس کا اثرپہنچے گا اور یہ عذاب اور شدت ان پر بلاوجہ نہیں انہوں نے اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی مخالفت اختیار کی ۔ رسول اللہ ﷺ کی مخالفت اللہ کی مخالفت ہے اور اس کی سزابہت سخت ہے اور جو کوئی اللہ اور اس کے رسول کی مخالفت کا راستہ اختیار کرتا ہے اسے یہ بھی جان لینا چاہیئے کہ اللہ کے عذاب بھی بہت سخت ہیں اللہ کی بات انسان تک صرف رسول ہی کے وسیلہ سے پہنچتی ہے اور رسول وہ ہستی ہے جو اپنی پسند سے دین کے بارے کچھ نہیں فرماتا ہے وہ وحی ہوتی ہے لہٰذا اگر رسول اللہ ﷺ کی مخالفت اختیار کی تو یہ واضح طور پر اللہ ہی کی مخالفت ہے اور اللہ تعالیٰ کی محالفت عذاب الہٰی کو دعوت دینا ہے اس میں دو درجے ہیں شدید ترین درجہ انکار اور کفر ہے اور کم تریہ کہ رسومات کو سنت کے مقابل رواج دیا جائے جسے بدعت کا نام دیا گیا ہے جو جس درجے کا ارتکاب کرے گا ویسے ہی عذاب کا اس کو سامنا ہوگا اور یہ مزہ تو دنیا میں چکھ لو یعنی رسول اللہ ﷺ کی مخالفت نقدسزا بھی دلواتی ہے اور پھر دائمی عذاب بھی گلے پڑیگا کہ یہ تو نقدتوقتل ذلت شکست رسوائی اور بربادی ہی اور مرنے کے بعد تمہاراکفر تمہیں آگ کے عذاب میں داخل کرنے کا باعث ہوگا۔ یہاں سے خطاب اطاعت شعاروں کو فرماتے ہوئے ارشاد ہوتا ہے کہ اے ایمان والوکفار سے سرمیدان مقابلہ کرنا پڑے تو کبھی پیٹھ نہ دکھاؤکہ مومن کو شکست ہوتی نہیں شہید نہیں ہوگیا تو بھی مراد پا گیا اور یا پھر فاتح ہوگا اور مراد پالے گا ہاں جنگی داؤپیچ لگانے کے لیے ادھر ادھر بھاگناجی سے دشمن کے سامنے سے بھاگنا شروع کرکے اسے کسی گھات میں لے آئے یامزید کمک حاصل کرنے کے لیے واپس پلٹنا کہ دنیا عالم اسباب ہے اور ترک سبب درست نہیں مثلا کفار کا لشکر زیادہ تعداد میں ہے اور مسلمان واپس پلٹنا کہ دنیا عالم اسباب ہے اور ترک سبب درست نہیں مثلا کفار کا لشکر زیادہ تعداد میں ہے اور مسلمان واپس جاکرمزید کمک حاصل کرسکتے ہیں تو ایسے میں حرج نہیں ورنہ اگر محض جان بچانے کو بھاگا تو اس نے غضب الٰہی کو دعوت دی اور ایسے لوگوں کاٹھکانہ تو جہنم ہے جو بہت تکلیف وہ جگہ ہے یعنی اس کا یہ عمل دعوی ایمان کی نفی کرتا ہے اور وہ اسی عذاب کا مستحق ہے جو کفار کے لیے ہے اسی لیے میدان جہاد سے بھاگنا حرام ہے۔ فنائے تام چونکہ کمال ایمان تو حضوری اور فنائے تام کا نام ہے جس کا اعلی ترین درجہ حضور اکرم ﷺ کو اور صحابہ کرام ؓ کو حاصل تھا کہ میدان جہاد میں تم لوگوں نے کفار کو تھوٹاہی قتل کیا ہے وہ تو اللہ نے انہیں قتل کیا یعنی فعل باری تھا صادرتمہارے ہاتھوں سے ہوا اور یہی فنائے تام ہے کہ نہ صرف قلب بلکہ اعضاء وجوارح مرضیات باری پہ فدا ہوجائیں جیسا کہ حدیث قدسی میں ارشاد ہے کہ میں بندے کے ہاتھ بن جاتا ہوں جن سے پکڑتا ہوں ۔ پاؤں بن جاتا ہوں جن سے چلتا ہے وغیرہ ۔ اور یہی کمال بدرجہ اتم آپ کو حاصل تھا کہ جب آپ نے ریت پھینکی تو آپ نے نہیں پھینکی وہ تو اللہ جل شانہ نے پھینکی سبحان اللہ ذراملاخطہ ہو جب آپ نے ریت پھینکی تو آپ نے ریت نہیں پھینکی وہ تو اللہ کریم نے پھینکی یعنی یہاں بھی فعل اسی ذات کا تھا صادروست نبوت سے ہوا آپ نے پہلے خبر کردی تھی کہ اللہ نے فتح کی بشارت دی ہے بلکہ آپ نے مختلف کفار کے قتل ہونے کی جگہ کی نشاندھی فرمادی تھی اور پھر وہ لوگ انہی جگہوں پر قتل ہوئے ، اور جب کفار کا لشکر طبل جنگ بجاتا ہوا متکبر انہ انداز میں آگے بڑھا تو آپ نے تین بارمٹھی مٹھی بھر ریت پھینکی ایک قلب لشکر پر اور ایک ایک میمنہ اور میسرہ پر تو کوئی ایسا لشکر ی نہ تھا جسکے منہ پر کنکریاں نہ لگی ہوں اور آنکھوں میں ریت نہ پہنچی ہو۔ گویا تقاضائے ایمان فنائے تام ہے یہ کمال ہے اور کم تردرجہ یہ ہے کہ اللہ کے ارشادات سن کر ان پر اعتمادتو ہو اگر یہ بھی نصیب نہیں اور اعمال میں سب کچھ اپنی ہی رائے سے کرتا ہے جیسے میدان جنگ سے فرار کہ محض اپنے حیلے کو موت سے بچنے کا سبب سمجھاتویہ ایمان کے نہ ہونے کی دلیل ہے یہ ایک ایسا آئینہ ہے جس میں ہم آج بھی اپنا حلیہ دیکھ سکتے ہیں بہرحال فرمایا یہ احسان کہ قلب کو رابطہ سے نوازا آسمانوں سے پانی برسایا مددکوفرشتے نازل فرمائے اور پھر فنائے تام کے مرتبہ پہ فائز کیا اس لیے کہ مومنین کو حسن و خوبی سے اور انعامات سے بھی آزمایاجائے مکی زندگی کا امتحان شدائدکا تھا یہاں سے انعامات کا سلسلہ شروع ہوگیا اور یہ مخلوق پر اتمام حجت اور اظہار کے لیے ہوتا ہے ورنہ اللہ کریم تو سننے والے بھی ہیں اور بغیرآزمائے بھی سب ہوگیا اور یہ مخلوق پر اتمام حجت اور اظہارکا مقصد کفار کا غرور توڑنا اور ان کی تجاویز کو ناکام بنانا بھی تھا اب ان سے فرمادیجیے کہ اگر یہی مقابلہ معیارحق تھا تو فیصلہ ہوچکا کہ ان بدبختوں نے مکہ مکرمہ سے روانہ ہوتے وقت بیت اللہ شریف کے یردوں کو تھا م کر دعا کی تھی کہ اللہ اعلیٰ و افضل کو اور جو حق پر ہے اس کو فتح دے ان کے گمان میں یہ ان کے اوصاف تھے حالانکہ یہ اوصاف تو مومنین کو حاصل تھے تو فرمایا اب بدر کی شکست سے تم پر حق اور بھی واضح ہوگیا اب ان سے کہیے کہ اگر اب بھی کفروعناد سے بازآجائیں تو بہت بہتر ہے لیکن اگر انہوں نے وہی رویہ اپنایا تو اللہ کی طرف سے بھی اسی طرح ذلیل کیے جاتے رہیں گے اور یہ گمان چھوڑدیں کہ پھر زیادہ فوج جمع کرلیں گے ایسی کثرت بھی کوئی فائدہ نہ دے گی اس لیے کہ مومنین کو معیت باری حاصل ہے یعنی مسلمانوں کے ساتھ تو اللہ ہے تمہاری افرادی قوت یا اسباب کی کثرت خود اللہ کے مقابلے میں تو کوئی حیثیت نہیں رکھتی ۔
Top