Tibyan-ul-Quran - Al-Kahf : 52
اِذْ اَوَى الْفِتْیَةُ اِلَى الْكَهْفِ فَقَالُوْا رَبَّنَاۤ اٰتِنَا مِنْ لَّدُنْكَ رَحْمَةً وَّ هَیِّئْ لَنَا مِنْ اَمْرِنَا رَشَدًا
اِذْ : جب اَوَى : پناہ لی الْفِتْيَةُ : جوان (جمع) اِلَى : طرف۔ میں الْكَهْفِ : غار فَقَالُوْا : تو انہوں نے کہا رَبَّنَآ : اے ہمارے رب اٰتِنَا : ہمیں دے مِنْ لَّدُنْكَ : اپنی طرف سے رَحْمَةً : رحمت وَّهَيِّئْ : اور مہیا کر لَنَا : ہمارے لیے مِنْ اَمْرِنَا : ہمارے کام میں رَشَدًا : درستی
آپ ﷺ سے رخصت تو وہی مانگ رہے ہیں جو اللہ اور یوم آخرت پر ایمان نہیں رکھتے اور ان کے دل شکوک میں پڑگئے ہیں اور وہ اپنے اسی شک و شبہ کے اندر متردد ہیں
آیت 45 اِنَّمَا یَسْتَاْذِنُکَ الَّذِیْنَ لاَ یُؤْمِنُوْنَ باللّٰہِ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ وَارْتَابَتْ قُلُوْبُہُمْ یہاں سورة الحجرات کی مذکورہ آیت کے الفاظ ثُمَّ لَمْ یَرْتَابُوْا ذہن میں دوبارہ تازہ کرلیجئے کہ مؤمن تو وہی ہیں جو ایمان لانے کے بعد شک میں نہ پڑیں ‘ اور یہاں وارْتَابَتْ قُلُوْبُہُمْ کے الفاظ سے واضح فرما دیا کہ ان منافقین کے دلوں کے اندر تو شکوک و شبہات مستقل طور پر ڈیرے ڈال چکے ہیں۔ فَہُمْ فِیْ رَیْبِہِمْ یَتَرَدَّدُوْنَ اپنے ایمان کے اندر پیدا ہونے والے شکوک و شبہات کی وجہ سے وہ تذبذب میں پڑے ہوئے ہیں اور جہاد کے لیے نکلنے کے بارے میں فیصلہ نہیں کر پا رہے۔ کبھی ان کو مسلمانوں کے ساتھ چلنے میں مصلحت نظر آتی کہ نہ جانے سے ایمان کا ظاہری بھرم بھی جاتا رہے گا ‘ مگر پھر فوراً ہی مسافت کی مشقت کے تصور سے دل بیٹھ جاتا ‘ دنیوی مفادات کا تصور پاؤں کی بیڑی بن جاتا اور پھر سے جھوٹے بہانے بننے شروع ہوجاتے۔
Top