Tafseer-e-Baghwi - Ibrahim : 46
وَ قَدْ مَكَرُوْا مَكْرَهُمْ وَ عِنْدَ اللّٰهِ مَكْرُهُمْ١ؕ وَ اِنْ كَانَ مَكْرُهُمْ لِتَزُوْلَ مِنْهُ الْجِبَالُ
وَ : اور قَدْ مَكَرُوْا : انہوں نے داؤ چلے مَكْرَهُمْ : اپنے داؤ وَ : اور عِنْدَ اللّٰهِ : اللہ کے آگے مَكْرُهُمْ : ان کا داؤ وَ : اور اِنْ : اگرچہ كَانَ : تھا مَكْرُهُمْ : ان کا داؤ لِتَزُوْلَ : کہ ٹل جائے مِنْهُ : اس سے الْجِبَالُ : پہاڑ
اور انہوں نے (بڑی بڑی) تدبیریں کیں اور انکی (سب) تدبیریں خدا کے ہاں (لکھی ہوئی) ہیں۔ گو وہ تدبیریں ایسی (غضب کی) تھیں کہ ان سے پہاڑ بھی ٹل جائیں۔
46۔” وقد مکروا مکرھم و عند اللہ مکرھم “ ان کے فریب کا بدلہ ۔” وان کان مکرھم “ ابن مسعود ؓ نے ” وان کاد مکرھم “ دال کے ساتھ پڑھا ہے اور عام قراء نے اس کو نون کے ساتھ پڑھا ہے۔ مطلب یہ ہوگا کہ ان کا مکرایسا تھا کہ پہاڑ بھی اپنی جگہ سے ہل جاتا ۔ حسن (رح) کا قول ہے کہ ان کے مکر پہاڑوں کو ان کی جگہ سے نہیں ہٹا سکتا اور بعض نے کہا کہ اس کا معنی یہ ہے کہ ان سے مکر و فریب آپ ﷺ کی نبوت اور شریعت الٰہی کو زائل نہیں کرسکتے جو پہاڑوں کی مانند پائیدار ہیں ۔ ابن جریج اور کسائی رحمہما اللہ نے ” لتزول “ لام کے فتحہ کے ساتھ پڑھا ہے اور دوسرے لام کو فرع پڑھا ہے ۔ اس کا معنی یہ ہوگا کہ بیشک ان کا مکر بلا شبہ ایسا ہے کہ اس کی وجہ سے پہاڑ بھی ہل جائیں۔ ( یعنی ان کا شریک بہت سخت تھا) لیکن پھر بھی نبی کریم ﷺ کے امورشریعہ کو نقصان نہیں پہنچا سکے۔ قتادہ (رح) کا قول ہے کہ ان کا مکر ( شرک) بہت سخت تھا کہ اس سے پہاڑ ہل جائیں ، جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ’ ’ وتخرالجبال وھذا ان دعو ا للرمن ولدا “ ۔ نمرود کا آسمان پر چڑھنے کا واقعہ حضرت علی ؓ سے حکایت بیان کی جاتی ہے کہ اس آیت کے معنی میں اس کا نزول نمرود کے حق میں ہوا جس نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے بارے میں جھگڑا کیا تھا ۔ نمرود نے کہا کہ اگر ابراہیم (علیہ السلام) کا قول سچا ہے تو میں آسمان تک پہنچ کر خود دیکھوں گا کہ وہاں کون ہے ، کیا ہے۔ چناچہ آسمان تک چڑھنے کی ایک صورت بنائی کہ گدھ کے چار بچے لے کر ان کو پالا اور ٹریننگ دی ۔ جب وہ جوان ہوگئے ایک صندوق بنوایا جس کے دروزے قائم کیے ، ایک بالائی جانب ایک نیچے کی طرف اور چار لکڑیاں لے کر صندوق کے ہر گوشہ میں ایک ایک لکڑ ی کھڑی کی اور ہر ایک لکڑی کی بالائی نوک پر گوشت کا ٹکڑا باندھ دیا ۔ پھر صندوق کو گدھوں ی ٹانگوں سے باندھ دیا ۔ اس کے بعد نمرود ایک آدمی کو ساتھ لے کر صندوق میں بیٹھ گیا اور گدھوں کو اڑایا ، گدھ اڑے اور گوشت حاصل کرنے کے لیے اوپر اٹھتے گئے۔ اسی طرح اوپر چڑھتے رہے اور دور ہوا میں پہنچ گئے۔ ایک روز گزر گیا تو نمرود نے ساتھی سے کہا اوپر کا دروزہ کھول کردیکھو ، آسمان قریب آگیا یا نہیں ، ساتھی نے دروازہ کھول کر دیکھا اور بولا آسمان تو ویسے ہی دور ہے جیسے پہلے تھا۔ نمرود نے کہا کہ اب نیچے کا دروازہ کھول کر دیکھو ساتھی نے نیچے کا دروازہ کھول کر دیکھا اور کہا زمین ایک تالاب کی طرح اور پہاڑ دھوئیں کی مانند دکھائی دے رہے ہیں ۔ غرض گدھ اوپر اٹھتے اڑتے گئے یہاں تک کہ ایک دن اور گزر گیا ۔ اب خلاء گدھوں کی اڑان میں رکاوٹ پیدا کرنے لگی ، نمرود نے ساتھی سے کہا اب دونوں دروزے کھول کر دیکھو ، اوپر کا دروازہ کھولا تو آسمان ویسے ہی اپنی ہیئت پر نظر آیا اور نیچے کا دروازہ کھول کر دیکھا تو زمین کی جگہ صرف ایک تاریک سیاہی نظر آنے لگی اور غیب سے ندا آئی، باغی تو کہاں جاناچاہتا ہے ؟ عکرمہ (رح) کا بیان ہے کہ نمرود کے ساتھ تابوت میں ایک غلام بھی تیر کمان لیے موجود تھا، غلام نے تیرا پھینکا ، تیر خون آلود ہو کر لوٹ آیا ، کوئی مچھلی سمندر سے تڑپ کر خلا میں پہنچ گئی ، تیر اس کے خون سے رنگین ہوگیا تھا۔ بعض نے کہا کہ کسی پرندے کے خون سے آلودہ ہوگیا تھا نمرود نے کہا کہ آسمان والے خدا کے کام سے فارغ ہوگیا ۔ پھر ساتھی کو حکم دیا کہ اب لکڑیوں کو الٹ دو اوپر کا رخ نیچے کی طرف کر دو ، ساتھی نے اس حکم کی تعمیل کی ، اس طرح گوشت نیچے کی طرف ہوگیا اور گدھ گوشت کو نیچے کی طرف دیکھ کر نیچے اترنے لگے ، پہاڑوں نے صندوق اور گدھوں کی سرسراہٹ سنی تو خوفزدہ ہوگئے ، ان کو خیال ہوا کہ آسمان سے کوئی نئی مصیبت آگئی اور قیامت برپا ہوگئی ، خوف زدہ ہو کر قریب تھا کہ اپنی جگہ سے ٹل جائیں ۔ یہی مطلب ہے اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کا ” وان کان مکرھم لتزول منہ الجبال “۔
Top