Tafseer-e-Baghwi - An-Nahl : 81
وَ اللّٰهُ جَعَلَ لَكُمْ مِّمَّا خَلَقَ ظِلٰلًا وَّ جَعَلَ لَكُمْ مِّنَ الْجِبَالِ اَكْنَانًا وَّ جَعَلَ لَكُمْ سَرَابِیْلَ تَقِیْكُمُ الْحَرَّ وَ سَرَابِیْلَ تَقِیْكُمْ بَاْسَكُمْ١ؕ كَذٰلِكَ یُتِمُّ نِعْمَتَهٗ عَلَیْكُمْ لَعَلَّكُمْ تُسْلِمُوْنَ
وَاللّٰهُ : اور اللہ جَعَلَ : بنایا لَكُمْ : تمہارے لیے مِّمَّا : اس سے جو خَلَقَ : اس نے پیدا کیا ظِلٰلًا : سائے وَّجَعَلَ : اور بنایا لَكُمْ : تمہارے لیے مِّنَ : سے الْجِبَالِ : پہاڑوں اَكْنَانًا : پناہ گاہیں وَّجَعَلَ : اور بنایا لَكُمْ : تمہارے لیے سَرَابِيْلَ : کرتے تَقِيْكُمُ : بچاتے ہیں تمہیں الْحَرَّ : گرمی وَسَرَابِيْلَ : اور کرتے تَقِيْكُمْ : بچاتے ہیں تمہیں بَاْسَكُمْ : تمہاری لڑائی كَذٰلِكَ : اسی طرح يُتِمُّ : وہ مکمل کرتا ہے نِعْمَتَهٗ : اپنی نعمت عَلَيْكُمْ : تم پر لَعَلَّكُمْ : تاکہ تم تُسْلِمُوْنَ : فرمانبردار بنو
اور خدا ہی نے تمہارے (آرام کے) لئے اپنی پیدا کی ہوئی چیزوں کے سائے بنائے اور پہاڑوں میں غاریں بنائیں اور کرتے بنائے جو تم کو گرمی سے بچائیں اور (ایسے) کرتے (بھی) جو تم کو (اسلحہ) جنگ (کے ضرر) سے محفوظ رکھیں۔ اسی طرح خدا پنا احسان تم پر پورا کرتا ہے تاکہ تم فرماں بردار بنو۔
تفسیر (81)” واللہ جعل لکم مما خلق ظلالاً “ وہ گرمی سے بچنے کے لیے چھائوں میں بیٹھتے ہیں۔ خواہ وہ چھائوں درخت کی ہوں یا ٹیلے وغیرہ کی۔ ” وجعل لکم من الجبال اکناناً “ پہاڑ اور غار میں چھپنے کی جگہ۔” اکنانا کن “ کی جمع ہے چھپنے کا مقام، مکان وغیرہ۔ ” وجعل لکم سرابیل “ اور بنائے تمہارے لیے سوت، اون ، کنان، ریشم وغیرہ کے کچھ حصے۔” تقیکم “ جس سے تم بچتے ہو۔ ” الحر “ اہل معانی نے لھا ہے کہ تم اس سے سردی اور گرمی میں بچتے ہو۔ یہاں پر صرف (حر) کو ذکر کیا اور سردی کو اس پر چھوڑ دیا۔ ایک کو ذکر کرنے پر اکتفاء کیا۔ ” و سرابیل تقیکم باسکم “ اس سے مراد زرہیں، خود اور جنگی لباس۔ تم لڑائی میں اس سے اپنا بچائو کرتے ہو۔ ” کذلک یتم نعمتہ علیکم لعلکم تسلمون “ تاکہ تم ان کی طرف مخلص ہوکراطاعت کرنے والے بن جائو۔ عطاء خراسانی کا قول ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کی سمجھ کے موافق قرآن نازل کیا اور فرمایا دیکھو پہاڑوں میں پناہ گاہیں پیدا کرنے کا ذکر فرمایا اور میدان و صحرا جو پہاڑوں سے بڑے ہیں ان کا ذکر نہیں کیا اور چونکہ وہ خیموں اور بالوں والے تھے۔ اسی طرح ایک اور آیت میں فرمایا ” وینزل من السماء من جبال فیھا من برد “ اللہ آسمانی پہاڑوں سے اولے اتارتا ہے۔ یہاں برف کا ذکر نہیں کیا کیونکہ بارش برفباری سے بہت زیادہ ہوتی ہے۔ اس کی وجہ بھی یہی ہے کہ وہ برف باری سے واقف بھی نہ تھے اور فرمایا ” تقیکم الحر “ آیت مذکورہ بالا میں گرمی سے حفاظت کو لباس کا فائدہ قرار دیا ہے، سردی کا ذکر نہیں کیا کیونکہ ان لوگوں کو گرمی سے ہی زیادہ واسطہ پڑتا تھا۔
Top