Baseerat-e-Quran - Al-An'aam : 4
هُوَ الَّذِیْۤ اَنْزَلَ السَّكِیْنَةَ فِیْ قُلُوْبِ الْمُؤْمِنِیْنَ لِیَزْدَادُوْۤا اِیْمَانًا مَّعَ اِیْمَانِهِمْ١ؕ وَ لِلّٰهِ جُنُوْدُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ١ؕ وَ كَانَ اللّٰهُ عَلِیْمًا حَكِیْمًاۙ
هُوَ الَّذِيْٓ : وہی وہ جس نے اَنْزَلَ : اتاری السَّكِيْنَةَ : سکینہ (تسلی) فِيْ قُلُوْبِ : دلوں میں الْمُؤْمِنِيْنَ : مومنوں لِيَزْدَادُوْٓا : تاکہ وہ بڑھائے اِيْمَانًا : ایمان مَّعَ : ساتھ اِيْمَانِهِمْ ۭ : ان کے ایمان کے وَلِلّٰهِ : اور اللہ کیلئے جُنُوْدُ : لشکر (جمع) السَّمٰوٰتِ : آسمانوں وَالْاَرْضِ ۭ : اور زمین وَكَانَ اللّٰهُ : اور ہے اللہ عَلِيْمًا : جاننے و الا حَكِيْمًا : حکمت والا
وہی تو ہے جس نے اہل ایمان کے دلوں میں سکون ( ضبط اور اطمینان) پیدا کیا تاکہ وہ ایمان یقین جو انہیں پہلے سے حاصل تھا ان کا ایمان و یقین اور بڑھ جائے۔ آسمانوں اور زمین کے سارے لشکر اللہ کے ہیں۔ اور اللہ بہت جاننے والا اور حکمت والا ہے۔
لغات القرآن : آیت نمبر 4 تا 7 : فوزا عظیما (بڑی کامیابی) الظانین ( گمان کرنے والے) ‘ ظن السوئ ( برا گمان) دآ ئرۃ السوئ ( مصیبت کا دائرہ۔ چکر) ‘ اعد ( اس نے تیار کیا ہے) سآئت (بری۔ بدترین) مصیر (ٹھکانا) ۔ تشریح : آیت نمبر 4 تا 7 : جب نبی کریم ﷺ نے خواب میں یہ دیکھا کہ آپ عمرہ اداکر رہے ہیں تو آپ نے یہ ارادہ کیا کہ زیارت بیت اللہ کے لئے تشریف لے جائیں۔ آپ ﷺ نے اس کا ذکر صحابہ کرام ؓ سے کیا تو صحابہ کرام ؓ کی ایک بہت بڑی تعداد نے آپ کے ساتھ جانے کی خواہش کا اظہار کیا۔ ڈیڑھ ہزار صحابہ کرام ؓ کو لے کر آپ عمرہ کی نیت سے مکہ مکرمہ کی طرف روانہ ہوگئے۔ آپ نے مکہ سے قریب حدیبیہ کے مقام پر پڑائو ڈالا۔ اس موقع پر کفار مکہ نے اہل ایمان میں اشتعال پھیلانے اور اس غلط فہمی کو عام کرنے کی ہر ممکن کوشش کی کہ مسلمان عمرہ ادا کرنے نہیں بلکہ عمرہ کے بہانے مکہ مکرمہ پر قبضہ کرنے آئے ہیں۔ کفار قریش مختلف کاروائیاں کرنے کے باوجو جب اپنی بات ثابت نہ کرسکے تو انہوں نے صلح کرنے کی بات کی اور بعض شرائط کے ساتھ نبی کریم ﷺ اور صحابہ کرام ؓ سے یہا کہ کہ اس سال تو آپ واپس چلے جائیں آئندہ سال آکر عمرہ اداکریں۔ کفار نے شرائط بھی ایسی رکھیں جو بظاہر مسلمانوں کے لئے توہین آمیز تھیں لیکن جب صحابہ کرام ؓ نے یہ محسوس کیا کہ آپ ہر حال میں صلح کرنا چاہتے ہیں تو آپ کے فیصلے کے سامنے سب خاموش رہے اور کسی طرح کا اعتراض نہیں کیا اور آپ کی مکمل اطاعت و فرماں برداری کرتے ہوئے سر تسلیم خم کردیا۔ آپ ﷺ نے جانور قربان کردیئے ‘ احرام کھول دیئے اور مدینہ منورہ واپسی کا حکم دیا جس کی صحابہ کرام ؓ نے پوری طرح تعمیل لیکن تمام صحابہ اپنے دلوں میں شدید رنجش اور ذلت محسوس کررہے تھے۔ ابھی مکہ سے واپسی پر چند میل ہی گئے ہوں گے کہ سوئہ فتح کی وہ آیات نازل ہوئیں جن میں نبی کریم ﷺ کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ اے نبی ﷺ ! ہم نے آپ کو ایک کھلی فتح عطا کی ہے اور آپ سے جو بھی کوتاہیاں ہوگئی ہیں یا آئندہ ہوں گی وہ سب معاف کردی گئیں۔ اللہ یہ چاہتا ہے کہ وہ آپ کے اوپر اپنی نعمت کو مکمل فرمادے۔ صراط مستقیم کی طرف رہنمائی فرمائے اور آپ کی زبردست مدد فرمائے۔ بعد کے حالات نے ثابت کردیا کہ واقعی ” صلح حدیبیہ “ فتح مبین تھی کیونکہ اس صلح کی وجہ سے کفارنے جن طاقتوں سے معاہدے کر رکھے تھے ان میں پھوٹ پڑگئی اور کفار بری طرح کمزور پڑگئے۔ خیبر فتح ہوا۔ ساری دنیا کے بادشاہوں اور حکمرانوں تک دین اسلام کا پیغام پہنچایا گیا اور گروہ کے گروہ دائرہ اسلام میں داخل ہونا شروع ہوگئے۔ جب سورة فتح کی ابتدائی آیات نازل ہوئیں تو بعض صحابہ کرام نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ ! یہ تو اللہ کا وہ کرم ہے جو اس نے آپ پر کیا ہے ہمارے لئے کیا ہے ؟ اس پر زیر مطالعہ آیات نازل ہوئیں جن میں اللہ نے فرمایا کہ اللہ نے اہل ایمان کے دلوں میں ” سکینہ “ نازل کیا یعنی کفار اور منافقین کی شدید اشتعال انگزیوں اور مخالفتوں کے باوجود صحابہ کرام ؓ مشتعل نہ ہوئے اور اللہ کے رسول ﷺ کی مکمل اطاعت و فرماں برداری ‘ اعلیٰ ترین کردار ‘ تحمل ‘ برداشت ‘ سنجیدگی اور وقار کا بےمثال مظاہرہ کیا حالانکہ کفارو منافقین صرف اشتعال ہی نہیں دلا رہے تھے بلکہ طرح طرح کی غلط فہمیاں بھی پیدا کررہے تھے مثلاً مدینہ میں منافقین یہ کہہ رہے تھے کہ خواہ مخواہ موت کے مہ میں کود پڑنے سے کیا فائدہ۔ دوسری طرف کفار قریش اس بات کا بڑی شدت سے پروپیگنڈا کررہے تھے کہ مسلمان عمرہ کرنے نہیں بلکہ مکہ مکرمہ پر قبضہ کرنے کیلئے آئے ہیں لہٰذا ان کو ہر حال میں مکہ میں داخل ہونے سے روکنا ضروری ہے۔ (1) اس وقت اہل ایمان نے جس طرح رسول اللہ ﷺ کی اطاعت و فرماں برداری کی اس کی مثال ساری انسانی تاریخ میں نہیں ملتی۔ اسی کو اللہ نے ” سکینہ “ فرمایا ہے۔ (2) دوسری نعمت یہ عطا فرمائی کہ اہل اسلام کے ایمان و یقین میں اور ترقی عطا فرمائی اور وہ اللہ و رسول کے احکامات کے سامنے اپنے آپ کو جکا دینے سے نصیب ہوئی۔ (3) تیسری نعمت یہ ہے کہ وہ اللہ جس کے پاس آسمانوں اور زمین کے سارے لشکر موجود ہیں اس نے ان کے ذریعہ کفار قر یش کے دلوں میں رعب اور ہیبت کو ڈال دیا اور ان کی ہر سازش کو ناکام بنا دیا اور یہ سب کچھ اس اللہ کی طرف سے ہوا جو ہر بات کو جانتا ہے اور وہی اس کی حکمت سے واقف ہے۔ (4) چوتھی نعمت یہ ہے کہ ان اہل ایمان کو اللہ تعالیٰ ان جنتوں میں داخل فرمائے گا جن کے نیچے سے نہریں بہتی ہوں گی۔ ہر طرف خوش حالی ‘ خوشیاں اور سر سبزی و شادابیاں ہوں گی جن میں اہل ایمان ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے۔ (5) پانچویں نعمت یہ ہے کہ اللہ ان کی تمام خطاؤں ‘ لغزشوں اور بھول چوک کو معاف فرمادے گا اور یہ اللہ کے نزدیک سب سے بڑی کامیابی ہے۔ فرمایا کہ اہل امیان تو جنت کی ابدی راحتوں میں ہوں گے لیکن منافق مرد اور عورتیں ‘ مشرک مرد اور عورتیں جنہوں نے اللہ و رسول کے خلاف طرح طرح کی بدگمانیاں پھیلا رکھی تھیں وہ اپنے جال میں اور حالات کے بھنور میں اسی طرح پھنسے رہیں گے کہ ان پر اللہ کا غضب اور لعنت برستی رہے گی اور اللہ نے ان کے لئے بدترین ٹھکانا جہنم تیار کر رکھا ہے۔ فرمایا کہ آسمانوں اور زمین کے سارے لشکر اللہ کے ہیں اور وہ اللہ ہر چیز کی حکمت اور راز کو پوری طرح جانتا ہے۔ وہی اہل ایمان کو پوری طرح نجات اور آخرت کی نعمتوں سے مالا مال کرے گا اور کفار کو ایسی جہنم میں جھونک دیا جائے گا جو ایک بدترین ٹھکانا ہے جس میں وہ ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے۔ اس سے بڑھ کر اہل ایمان کی کامیابی کیا ہوگی کہ اللہ ان کو دنیا میں بھی سرخ رو فرمائے گا اور آخرت میں ہر طرح کی نعمتوں سے نواز دے گا۔
Top