Tafseer-e-Baghwi - Al-Kahf : 77
فَانْطَلَقَا١ٙ حَتّٰۤى اِذَاۤ اَتَیَاۤ اَهْلَ قَرْیَةِ اِ۟سْتَطْعَمَاۤ اَهْلَهَا فَاَبَوْا اَنْ یُّضَیِّفُوْهُمَا فَوَجَدَا فِیْهَا جِدَارًا یُّرِیْدُ اَنْ یَّنْقَضَّ فَاَقَامَهٗ١ؕ قَالَ لَوْ شِئْتَ لَتَّخَذْتَ عَلَیْهِ اَجْرًا
فَانْطَلَقَا : پھر وہ دونوں چلے حَتّٰٓي : یہاں تک کہ اِذَآ اَتَيَآ : جب وہ دونوں آئے اَهْلَ قَرْيَةِ : ایک گاؤں والوں کے پاس اسْتَطْعَمَآ : دونوں نے کھانا مانگا اَهْلَهَا : اس کے باشندے فَاَبَوْا اَنْ : تو انہوں نے انکار کردیا کہ يُّضَيِّفُوْهُمَا : وہ ان کی ضیافت کریں فَوَجَدَا : پھر انہوں نے پائی (دیکھی) فِيْهَا جِدَارًا : اس میں (وہاں) ایک دیوار يُّرِيْدُ : وہ چاہتی تھی اَنْ يَّنْقَضَّ : کہ وہ گرپڑے فَاَقَامَهٗ : تو اس نے اسے سیدھا کردیا قَالَ : اس نے کہا لَوْ شِئْتَ : اگر تم چاہتے لَتَّخَذْتَ : لے لیتے عَلَيْهِ : اس پر اَجْرًا : اجرت
پھر وہ دونوں چلے یہاں تک کہ ایک گاؤں والوں کے پاس پہنچے، اور ان سے کھانا طلب کیا، مگر انہوں نے ان کی ضیافت کرنے سے انکار کردیا۔ پھر انہوں نے وہاں ایک دیوار دیکھی جو (جھک کر) گرا چاہتی تھی، خضرنے اس کو سیدھا کردیا (موسیٰ نے کہا) اگر آپ چاہتے تو (اس کام) کا معاوضہ لیتے (تاکہ) کھانے کا کام چلتا
(77)” فانطلقا حتی اذا اتیا اھل قریۃ “ ابن عباس ؓ کا قول ہے کہ اس سے مراد انطا کیہ بستی ہے۔ ابن سیرین کا قول ہے کہ یہ ایک ایکہ بستی تھی، کسی نے اس کا نام برقہ کہا ہے۔ حضرت ابوہریرہ ؓ کی روایت ہے کہ اندلس میں ایک شہر تھا وہی مراد ہے۔ ” استطعما اھلھا فابو ا ن یضیفو ھما “ حضرت ابی بن کعب ؓ کی روایت ہے۔ بیان کیا ہے کہ اس بستی والے کنجوس تھے، دونوں حضرات ان کے پاس پہنچے، ان کی مجلسوں میں گشت کیا اور کھانا طلب کیا لیکن انہوں نے نہیں دیا۔ حق مہمانی طلب کی تو کسی نے مہمان بھی نہ بنایا۔ حضرت قتادہ کا بیان ہے کہ وہ بد ترین بستی ہے جو مہمانوں کی میزبانی نہ کرے۔ حضرت ابوہریرہ ؓ کی روایت ہے فرماتے ہیں کہ دونوں بزرگوں نے بستی کے مردوں سے کھانا طلب کیا لیکن کسی نے نہیں دیا۔ آخر عورتوں سے مانگا تو ایک عورت نے دے دیا۔ اس پر دونوں نے وہاں مردوں پر لعنت کی۔ یہ عورت بربر والوں میں سے تھی۔ ” فوجدافیھا جداراً یرید ان ینقض “ وہ دیوار گر چکی تھی، یہ عرب کا محاورہ ہے کہ جو چیز کسی کے قرب میں واقع ہو، اس کا وہی حکم لگا دیتے ہیں، وہ دیوار گری نہیں تھی بلکہ گرنے کے قریب تھی۔ عرب بولتے ہیں کہ میرا گھر اس کے گھر کو دیکھتا ہے یعنی دونوں آمنے سامنے ہیں۔ ” فاقامہ “ اس کو سیدھا کردیا۔ حضرت ابی بن کعب ؓ کی روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ خضر (علیہ السلام) نے ہاتھ کے اشارے کے ساتھ دیوار کو سیدھا کردیا۔ سعید بن جبیر ؓ کا قول ہے کہ دیوار کو ہاتھ لگادیا، فوراً دیوار سیدھی ہوئی۔ ایک روایت میں حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا کہ حضرت خضر (علیہ السلام) نے اس دیوار کو گرار کر دو بار از سر نو تعمیر کردیا۔ سدی (رح) کا قول ہے کہ انہوں نے پہلے گارا بنایا، پھر دیوار کو بنادیا۔ ” قال “ موسیٰ (علیہ السلام) نے کہا۔ ” لو شئت لا تخذت علیہ اجراً “ ابن کثیر، ابو عمرو اور یعقوب نے ” لتخذت “ پڑھا ہے۔ تاء کی تخفیف کے ساتھ اور خاء کے کسرہ کے ساتھ اور دوسرے قراء نے ” لتخذت “ تاء کی تشدید کے ساتھ پڑھا ہے اور خاء کے فتحہ کے ساتھ۔ اس میں دونوں لغات ہیں۔ اس دیوار کی اصلاح میں اگر آپ چاہتے ہیں تو ان سے اجرت لے لیتے۔ ” اجرا “ اس کی بدل قیمت کہ آپ جانتے ہیں کہ اس بستی کے لوگ کنجوس ہیں۔ انہوں نے ہماری مہمانی نہیں کی، اگر آپ چاہتے تو اس کام کے بدلے میں ان سے اجرت لے لیتے۔
Top