Tafseer-e-Baghwi - Al-Kahf : 93
حَتّٰۤى اِذَا بَلَغَ بَیْنَ السَّدَّیْنِ وَجَدَ مِنْ دُوْنِهِمَا قَوْمًا١ۙ لَّا یَكَادُوْنَ یَفْقَهُوْنَ قَوْلًا
حَتّٰٓي : یہانتک کہ اِذَا بَلَغَ : جب وہ پہنچا بَيْنَ : درمیان السَّدَّيْنِ : دو دیواریں (پہاڑ) وَجَدَ : اس نے پایا مِنْ دُوْنِهِمَا : اور دونوں کے درے قَوْمًا : ایک قوم لَّا يَكَادُوْنَ : نہیں لگتے تھے يَفْقَهُوْنَ : وہ سمجھیں قَوْلًا : کوئی بات
یہاں تک کہ دو دیواروں کے درمیاں پہنچا تو دیکھا کہ ان کے اس طرف کچھ لوگ ہیں کہ بات کو سمجھ نہیں سکتے
تفسیر (93)” حتیٰ اذا بلغ بین السدین “ ابن کثیر، ابو عمر، حفص نے السدین اور ” سدا “ پڑھا ہے۔ سین کے فتحہ کے ساتھ اور دوسرے قراء نے سین کے ضمہ کے ساتھ پڑھا ہے اور سورة یٰسین میں فتحہ کے ساتھ ہے اور وہاں پر باقی قراء نے ضمہ کے ساتھ پڑھا ہے۔ ان میں سے بعض قراء کا قول ہے کہ ان دونوں کا معنی ایک ہی ہے۔ عکرمہ کا قول ہے کہ انسان کی بنائی ہوئی بندش کو سد کہتے ہیں اور جس کو اللہ تعالیٰ نے بنایا ” سد “ سین کے ضمہ کے ساتھ پڑھتے ہیں۔ یہی ابو عمر و کا قول ہے۔ بعض نے کہا کہ ” سد “ فتحہ کے ساتھ ہے، مصدر ہے اور ضمہ کے ساتھ نام ہے۔ سدین سے مراد اس جگہ وہ دو پہاڑ ہیں جن کے درمیان ذوالقرنین نے ایک دیوار بنادی تھی۔ ” وجد من دونھما قوماً “ دونوں پہاڑوں کے سامنے ” لکا یکادون یفقھون قولا “ حمزہ اور کسائی کے نزدیک یاء کے ضمہ کے ساتھ اور کاف کے کسرہ کے ساتھ۔ ابن عباس ؓ کا قول ہے کہ نہ وہ دوسرے کی بات سمجھتے تھے نہ کوئی دوسرا ان کی بات سمجھتا تھا۔
Top