Tafseer-e-Baghwi - Maryam : 28
یٰۤاُخْتَ هٰرُوْنَ مَا كَانَ اَبُوْكِ امْرَاَ سَوْءٍ وَّ مَا كَانَتْ اُمُّكِ بَغِیًّاۖۚ
يٰٓاُخْتَ هٰرُوْنَ : اے ہارون کی بہن مَا : نہ كَانَ : تھا اَبُوْكِ : تیرا باپ امْرَاَ : آدمی سَوْءٍ : برا وَّ : اور مَا كَانَتْ : نہ تھی اُمُّكِ : تیری ماں بَغِيًّا : بدکار
اے ہارون کی بہن نہ تو تیرا باپ ہی بد اطوار آدمی تھا اور نہ تیری ماں ہی بدکار تھی
28۔ یا اخت ہارون، مراد اس سے حضرت ہارون (علیہ السلام) کے ساتھ تشبیہ دینا ہے۔ یا اخت ہارون سے کون مراد ہیں ؟ قتادہ کا قول ہے کہ بنی اسرائیل میں ہارون بہت نیک صالح شخص تھا۔ روایت میں آتا ہے کہ جب یہ نیک صالح شخص مراتو اس کے جنازے میں چالیس ہزار ہارون نام کے شامل ہوئے دوسرے لوگوں کے علاوہ، حضرت مریم علیہماالسلام بھی بڑی عبادت گزار تھیں، نیکی اور عبادت کی وجہ سے ا ن لوگوں نے مریم کو ہارون کو بہن کہہ دیا۔ نسبی بہن مراد نہیں جس طرح اللہ نے ، ان المبذرین کانو اخوان الشیاطین، فرمایا ہے اور فضول مال برباد کرنے والوں کو شیطان کا بھائی کہا گیا ہے یعنی شیطانوں کی طرح نہ کہ شیطان کانسبی بھائی۔ حضرت مغیرہ بن شعبہ کا بیان ہے کہ جب میں خراسان پہنچا تو اہل خراسان نے مجھ سے کہا کہ تم قرآن میں ، یا اخت ہارون ، پڑھتے ہو حالانکہ موسیٰ (علیہ السلام) کا زمانہ عیسیٰ سے اتنا اتنا یعنی بہت مدت پہلے کا تھا میں نے یہ بات رسول اللہ سے دریافت کی حضور نے فرمایا وہ لوگ اپنے انبیاء اور گزشتہ نیک لوگوں کے ناموں پر اپنا نام رکھتے تھے۔ کلبی کا بیان ہے کہ حضرت مریم کے علاتی بھائی کا نام ہارون تھا۔ بنی اسرائیل میں وہ بہت ہی بزرگ اور نیک آدمی تھا سدی کا قول ہے کہ اخت ہارون کہنے سے ان کی مراد تھی حضرت موسیٰ کے بھائی حضرت ہارون (علیہ السلام) کی نسل میں سے ہونا ہے ۔ تمیم کے قبیلہ کے فرد کو اخو تمیم کہاجاتا ہے بعض نے کہا کہ بنی اسرائیل میں ایک بڑا بد چلن آدمی تھا جس کا نام ہارون تھا، ماکان ابوک، اس سے مراد حضرت عمران ہیں، امرا سوء ، ابن عباس کا قول ہے کہ اس کا معنی زانیا ہے۔ وماکانت امک، ماں سے مراد حضرت حنا ہیں، بغیا، اس سے مراد زانی ہے تو یہ بچہ کہاں سے لائی ہو۔
Top