Tafseer-e-Baghwi - Maryam : 48
وَ اَعْتَزِلُكُمْ وَ مَا تَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ وَ اَدْعُوْا رَبِّیْ١ۖ٘ عَسٰۤى اَلَّاۤ اَكُوْنَ بِدُعَآءِ رَبِّیْ شَقِیًّا
وَاَعْتَزِلُكُمْ : اور کنارہ کشی کرتا ہوں تم سے وَمَا : اور جو تَدْعُوْنَ : تم پرستش کرتے ہو مِنْ دُوْنِ : سوائے اللّٰهِ : اللہ وَاَدْعُوْا : اور میں عبادت کروں گا رَبِّيْ : اپنا رب عَسٰٓى : امید ہے اَلَّآ اَكُوْنَ : کہ نہ رہوں گا بِدُعَآءِ : عبادت سے رَبِّيْ : اپنا رب شَقِيًّا : محروم
اور میں آپ لوگوں سے اور جن کو آپ خدا کے سوا پکارا کرتے ہیں ان سے کنارہ کرتا ہوں اور اپنے پروردگار ہی کو پکاروں گا امید ہے کہ میں اپنے پروردگار کو پکار کر محروم نہیں رہوں گا
48۔ واعتزلکم وماتدعون من دون اللہ، میں کنارہ کشی کرتا ہوں ان معبودوں کی جن کی تم پوجا کرتے ہو مقاتل کا بیان ہے کہ حضرت ابراہیم نے ان سے جدائی اختیار کرکے ارض مقدسہ کی طرف چلے گئے ، وادعواربی، کہ میں اپنے رب کی عبادت کروں۔ عسی ان لااکون بدعاء ربی شقیا، جس طرح تم اپنے بتوں کی پوجا کرکے اور ان کو پکارنے کے بعد بھی ناکام رہتے ہو اس طرح میں اپنے رب کو پکار کر اور اس کی عبادت کرکے نامراد نہیں رہوں گا، بعض نے کہا کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ مجھے امید ہے کہ جب میں اس سے دعاء کروں تو وہ میری دعا قبول کرے گا اور تمہاری معبود تمہاری دعا قبول نہیں کرتے۔
Top