Tafseer-e-Baghwi - Maryam : 47
قَالَ سَلٰمٌ عَلَیْكَ١ۚ سَاَسْتَغْفِرُ لَكَ رَبِّیْ١ؕ اِنَّهٗ كَانَ بِیْ حَفِیًّا
قَالَ : اس نے کہا سَلٰمٌ : سلام عَلَيْكَ : تجھ پر سَاَسْتَغْفِرُ : میں ابھی بخشش مانگوں گا لَكَ : تیرے لیے رَبِّيْ : اپنا رب اِنَّهٗ : بیشک وہ كَانَ : ہے بِيْ : مجھ پر حَفِيًّا : مہربان
(ابراہیم نے) سلام علیک کہا (اور کہا کہ) میں آپ کے لئے اپنے پروردگار سے بخشش مانگوں گا۔ بیشک وہ مجھ پر نہایت مہربان ہے
تفسیر۔ 47۔ قال سلام علیک، ، حضرت ابراہیم نے فرمایا کہ آپ کو مجھ سے سلامتی ہو میں آپ کو کوئی ناپسندیدہ امر جس سے آپ کو تکلیف ہو نہیں پہنچاؤ گا، یہ اس لیے فرمایا کہ ان کو اس وقت ان کے کفر کی وجہ سے قتال کا حکم نہیں دیا گیا تھا، بعض حضرات نے کہا یہ جدائی اور مفارقت کا سلام تھا، بعض حضرات نے کہا یہ سلام نیکی اور لطف کا تھا، یہ جواب حلم ہے جو بیوقوف کو دیاجاتا ہے ، جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے ، واذاخاطبھم الجاھلون قالواسلاما،۔۔ ساستغفرلک ربی، اس کا مطلب یہ نہیں کہ می اللہ سے مشرک باپ کی مغفرت کی دعا کروں گا بل کہ مطلب یہ ہے کہ میں اپنے رب سے دعا کروں گا کہ وہ آپ کو شرک وکفر سے توبہ کرنے اور اسلام وایمان اختیار کرنے کی توفیق دے جو امر موجب مغفرت ہو اس کے حاصل ہونے کی توفیق ملنے کی دعا مشرک کے لیے کی جاسکتی ہے۔ انہ کان بی حفیا، وہ مجھ پر بڑی مہربانیاں اور کرم کرنے والا ہے۔ کلبی کا قول ہے کہ وہ عالم ہے میرے دعا کو جانتا اور قبول فرماتا ہے مجاہد کا قول ہے کہ اس نے مجھے دعاء کا عادی بنادیا ہے۔
Top