Tafseer-e-Baghwi - Al-Baqara : 224
وَ لَا تَجْعَلُوا اللّٰهَ عُرْضَةً لِّاَیْمَانِكُمْ اَنْ تَبَرُّوْا وَ تَتَّقُوْا وَ تُصْلِحُوْا بَیْنَ النَّاسِ١ؕ وَ اللّٰهُ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌ
وَلَا تَجْعَلُوا : اور نہ بناؤ اللّٰهَ : اللہ عُرْضَةً : نشانہ لِّاَيْمَانِكُمْ : اپنی قسموں کے لیے اَنْ : کہ تَبَرُّوْا : تم حسن سلوک کرو وَ : اور تَتَّقُوْا : پرہیزگاری کرو وَتُصْلِحُوْا : اور صلح کراؤ بَيْنَ : درمیان النَّاسِ : لوگ وَاللّٰهُ : اور اللہ سَمِيْعٌ : سنے والا عَلِيْمٌ : جاننے والا
اور خدا (کے نام) کو اس بات کا حیلہ نہ بنانا کہ (اس کی) قسمیں کھا کھا کر سلوک کرنے اور پرہیزگاری کرنے اور لوگوں میں صلح و سازگاری کرانے سے رک جاؤ اور خدا سب کچھ سنتا اور جانتا ہے
(تفسیر) 224۔: (آیت)” ولا تجعلوا اللہ عرضۃ لایمانکم “۔ یہ آیت حضرت عبداللہ بن رواحہ کے بارے میں نازل ہوئی ، پس حضرت عبداللہ ؓ نے قسم اٹھائی کہ نہ تو اس کے پاس جائیں گے نہ اس سے کلام کریں گے اور نہ اس کے اور اس کے مخالف کے درمیان صلح کرائیں گے اور اس سلسلہ میں حضرت عبداللہ ؓ سے جب بات کی جاتی تو آپ فرماتے ہیں کہ میں نے تو اللہ تعالیٰ کی قسم اٹھائی ہے کہ ایسا نہیں کروں گا لہذا میرے لیے سوائے قسم کو پورا کرنے کے کچھ جائز نہیں ہے ، پس اللہ تعالیٰ نے یہ آیت کریمہ نازل کی ، ابن جریج (رح) فرماتے ہیں یہ آیت کریمہ سیدنا ابوبکر صدیق ؓ کے بارے میں نازل ہوئی جب کہ حضرت ابوبکرصدیق ؓ نے قسم اٹھائی کہ مسطح پر خرچ نہیں کریں گے کیونکہ مسطح نے واقعہ افک میں خوض کیا (اس کے سننے میں دلچسپی لی یا بیان کیا) ، عرضہ اصل اصل میں شدت اور قوت کے لیے ہے اسی لیے وہ جانور جو سفر کے لیے تیار کیا جائے اسے عرضہ کہا جاتا ہے کیونکہ وہ سفر پر قادر ہوتا ہے پھر ہر وہ چیز جو کسی امر کی صلاحیت رکھتی ہو اس چیز کو اس امر کے لیے عرضہ کہا جاتا ہے ، حتی کہ عورت کو عرضۃ النکاح کہا جاتا ہے جب وہ نکاح لائق ہوجائے اور عرضہ ہر وہ چیز جو پیش آئے اور کسی شئی سے رکاوٹ بن جائے تو آیت کا معنی ہوگا کہ حلف باللہ کو بر (نیکی) اور تقوی کے لیے سبب مانع نہ بناؤ تم میں سے کسی کو صلہ رحمی اور نیکی کی طرف دعوت دی جائے ، جواب میں وہ کہے کہ میں نے اللہ تعالیٰ کے نام کی قسم اٹھائی ہے کہ میں یہ نیکی نہ کروں گا تو قسم کو نیکی چھوڑنے کا بہانہ بنا لے ۔ (آیت)” ان تبروا “۔ اس کا معنی ہے ” ان لا تبروا “ یہ کہ تم نیکی نہ کرو جس طرح کے اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں (آیت)” یتبین لکم ان تضلوا “ یعنی ” لئلا تضلوا “ (اللہ تعالیٰ تمہارے لیے بیان فرماتا ہے تاکہ تم نہ بھٹکو) حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ بیشک حضور اقدس ﷺ نے فرمایا کہ بیشک جس نے قسم اٹھائی پھر اس نے اس سے بہتر امر دیکھا تو اسے چاہیے کہ قسم (توڑ کر) کا کفارہ دے اور جو بہتر امر ہے اس کو کرے ۔
Top