Tafseer-e-Baghwi - Al-Baqara : 40
یٰبَنِیْۤ اِسْرَآءِیْلَ اذْكُرُوْا نِعْمَتِیَ الَّتِیْۤ اَنْعَمْتُ عَلَیْكُمْ وَ اَوْفُوْا بِعَهْدِیْۤ اُوْفِ بِعَهْدِكُمْ١ۚ وَ اِیَّایَ فَارْهَبُوْنِ
يَا بَنِیْ اِسْرَائِیْلَ : اے اولاد یعقوب اذْكُرُوْا : تم یاد کرو نِعْمَتِيَ : میری نعمت الَّتِیْ : جو اَنْعَمْتُ : میں نے بخشی عَلَيْكُمْ : تمہیں وَاَوْفُوْا : اور پورا کرو بِعَهْدِیْ : میرا وعدہ أُوْفِ : میں پورا کروں گا بِعَهْدِكُمْ : تمہارا وعدہ وَاِيَّايَ : اور مجھ ہی سے فَارْهَبُوْنِ : ڈرو
اے آل یعقوب ! میرے وہ احسان یاد کرو جو میں نے تم پر کئے تھے اور اس اقرار کو پورا کرو جو تم نے مجھ سے کیا تھا میں اس اقرار کو پورا کروں گا جو میں نے تم سے کیا تھا اور مجھی سے ڈرتے رہو
خاصیت آیت 40 تا 42۔ (آیت)” یَا بَنِیْ إِسْرَائِیْلَ اذْکُرُواْ نِعْمَتِیَ الَّتِیْ أَنْعَمْتُ عَلَیْْکُمْ وَأَوْفُواْ بِعَہْدِیْ أُوفِ بِعَہْدِکُمْ وَإِیَّایَ فَارْہَبُونِ (40) وَآمِنُواْ بِمَا أَنزَلْتُ مُصَدِّقاً لِّمَا مَعَکُمْ وَلاَ تَکُونُواْ أَوَّلَ کَافِرٍ بِہِ وَلاَ تَشْتَرُواْ بِآیَاتِیْ ثَمَناً قَلِیْلاً وَإِیَّایَ فَاتَّقُونِ (41) وَلاَ تَلْبِسُواْ الْحَقَّ بِالْبَاطِلِ وَتَکْتُمُواْ الْحَقَّ وَأَنتُمْ تَعْلَمُونَ (42) اگر کسی عورت سے کوئی بات حاصل کرنا مقصود ہو اور وہ نہ بتارہی ہو تو اس آیت کو کسی کنواری لڑکی کے کپڑے کے ٹکڑے پر لکھ لے اور جب وہ عورت سوئی ہوئی ہو تو اسے اس کے سینہ پر رکھ دے ، وہ عورت خود بخود اپنی معلومات بتانا شروع کر دے گی ۔ 40۔ (آیت)” یابنی اسرائیل “ اے اولاد یعقوب اور اسرائیل کا معنی عبداللہ اور ایل وہ اللہ تعالیٰ اور بعض نے کہا کہ اسرائیل کا معنی صفوۃ اللہ یعنی اللہ تعالیٰ کے پسندیدہ اور چنے ہوئے اور ابوجعفر نے (اسرائیل) کو بغیر ہمزہ کے پڑھا ہے ” اذکروا “ محفوظ رکھو ‘، ذکر دل سے ہوتا ہے اور زبان سے ہوتا ہے اور کہا گیا ہے کہ ذکر سے مراد شکر ہے اور شکر کا مفہوم لفظ ذکر کے ساتھ ادا کیا گیا ، اس لیے کہ شکر میں ذکر ہوتا ہے یعنی یاد دہانی ہوتی ہے یا یاد ہوتی ہے اور کفر میں نسیان ہوتا ہے۔ حضرت حسن ؓ فرماتے ہیں نعمت کا تذکرہ کرنا اس کا شکر ادا کرنا ہے ۔ (نعمتی) میری نعمتوں کا یعنی لفظ تو مفرد بولا گیا اور معنی کے لحاظ سے جمع مراد ہے جیسے اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے (آیت)” وان تعدوا نعمۃ اللہ لا تحصوھا “ (یعنی اگر تم اللہ تعالیٰ کی نعمتیں گننا چاہو تو پورا شمار بھی نہ کر سکوگے) (آیت)” التی انعمت علیکم “ یعنی آباء اجداد پر تمہارے اسلاف پر ، حضرت قتادہ ؓ فرماتے ہیں یہ وہ نعمتیں ہیں جن کے ساتھ بنو اسرائیل کو مخصوص کیا گیا ، مثلا سمندر کو پھاڑنا ، فرعون کو غرق کرکے بنی اسرائیل کو فرعون سے نجات بخشنا ، تیہ کے جنگل میں ان پر بادلوں کا سایہ کرنا ، من وسلوی کو نازل کرنا ، تورات کو نازل کرنا اور بھی بہت سی نعمتیں جنہیں شمار بھی نہیں کیا جاسکتا ، حضرت قتادہ (رح) کے علاوہ باقی حضرات فرماتے ہیں کہ ان نعمتوں سے مراد وہ تمام نعمتیں ہیں جو اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں پر فرمائین (آیت)” واوفوا بعھدی “ میرا حکم مان کر ” اوف بعھدکم “ قبول وثواب کے ساتھ حضرت قتادہ (رح) اور مجاہد (رح) فرماتے ہیں کہ اس عہد سے مراد وہ عہد ہیں جن کا ذکر سورة مائدہ میں کیا گیا ۔ (آیت)” ولقد اخذاللہ میثاق بنی اسرائیل وبعثنا منھم اثنی عشر نقیبا “۔ یہاں تک کہ فرمایا (آیت)” لاکفرن عنکم سیئاتکم “ پس یہ ہے قول اس کا (آیت)” اوف بعھدکم “ (یعنی تم سے گناہ کرا کر میں اپنا وعدہ پورا کروں گا) حضرت حسن ؓ فرماتے ہیں اس عہد سے مراد اللہ تعالیٰ کا قول (آیت)” واذ اخذنا میثاق بنی اسرائیل لا تعبدون الا اللہ “ اور کلبی کہتے ہیں اللہ تعالیٰ کا عہد بنی اسرائیل کی طرف حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی زبان پر وہ یہ کہ میں بنو اسماعیل کی طرف نبی امی بھیجنے والا ہوں ، پس جو اس کی اتباع کرے گا اور اس نور کی تصدیق کرے گا جو وہ لائیں گے میں اس کے گناہ بخش دوں گا اور اس کو جنت میں داخل کروں گا اور اس کے لیے دو دو اجر کروں گا ۔ (آیت)” واذ اخذ اللہ میثاق الذین اوتوالکتاب لتبیننہ للناس “ یعنی حضرت محمد ﷺ کا معاملہ (آیت)” وایای فارھبون “ پس نقض عہد توڑنے کے سلسلہ میں مجھ سے ڈرو ، ان الفاظ میں خطا حذف کی گئی ہیں مثلا ” فارھبون ، فاتقون ‘ واخشون “ (ان کے آخر میں یا تھی جو بوجہ وقف کے حذف ہوگئیں جن کی علامت ان کے نون پر زیر ہے) انہیں یعقوب نے ثابت رکھا ۔
Top