Tafseer-e-Baghwi - Al-Baqara : 66
فَجَعَلْنٰهَا نَكَالًا لِّمَا بَیْنَ یَدَیْهَا وَ مَا خَلْفَهَا وَ مَوْعِظَةً لِّلْمُتَّقِیْنَ
فَجَعَلْنَاهَا : پھر ہم نے اسے بنایا نَکَالًا : عبرت لِمَا بَيْنَ يَدَيْهَا : سامنے والوں کے لئے وَمَا خَلْفَهَا : اور پیچھے آنے والوں کے لئے وَمَوْعِظَةً : اور نصیحت لِلْمُتَّقِیْنَ : پرہیزگاروں کے لیے
اور اس قصے کو اس وقت کے لوگوں کے لئے اور جو ان کے بعد آنے والے تھے عبرت اور پرہیزگاروں کے لئے نصیحت بنادیا
66۔ (آیت)” فجعلناھا “ یعنی ہم نے بنادیا مسخ والی سزا دینے کو (نکالا) یعنی سزا اور عبرت نکال ہر اس سزا کا نام ہے جس کو دیکھنے واولا اس فعل سے رک جائے جس فعل کی سزا وہ دی گئی ہے اور اسی سے ہے ” نکول عن الیمین “ اور وہ رک جانا ہے ، اس کی اصل نکل ہے اور وہ قید (بیڑی ، ہتھکڑی) ہے۔ اور اس کی جمع انکال ہے (آیت)” لمابین یدیھا “ حضرت قتادہ ؓ فرماتے ہیں ” مابین یدیھا “ سے مراد سابقہ گناہ ہیں ، یعنی ہم نے اس سزا کو جزا بنادیا ، ان گناہوں کی جو شکار سے منع کرنے سے بھی پہلے واقع ہوئے ” وما خلفھا “ جو گناہ اب موجود ہیں جن کے باعث ان کا مواخذہ کیا گیا اور یہ گناہ مچھلیاں پکڑنے کا ہے حضرت ابو العالیہ ؓ اور حضرت ربیع ؓ فرماتے ہیں (اس کا معنی یہ ہے) کہ ان کے گزشتہ گناہوں کی سزا اور ان کے بعد آنے والوں کے لیے عبرت اس بات سے کہ ان کا طریقہ اختیار کریں دوسرا (ما) بمعنی من ہے اور کہا گیا ہے کہ ” جعلناھا “ یعنی اصحاب سبت والوں کی بستی کو ہم نے ان کے سامنے والوں کے لیے عبرت بنادیا ، یعنی ان بستیوں کے لیے جو اس وقت موجود تھیں اور (آیت)” وما خلفھا “ اور جو بستیاں بعد میں وجود میں آئیں گی تاکہ نصیحت حاصل کریں ۔ اور کہا گیا ہے اس میں تقدیم و تاخیر ہے ، تقدیر عبارت یوں ہوگی ” فجعلناھا وما خلفھا “ یعنی جو کچھ آخرت میں ان کے لیے عذاب تیار کیا گیا ۔ ” وجزاء لما بین یدیھا “ یعنی بدلہ ان گناہوں کا جو پہلے ہوئے ان کے گناہوں میں سے بسبب زیادتی کرنے ان کے ہفتہ کے معاملہ میں (آیت)” وموعظۃ للمتقین “ مؤمنین کے لیے جو حضور ﷺ کی امت میں سے ہیں پس ان کے کام کی طرح یہ کام نہ کریں ۔
Top