Tafseer-e-Baghwi - Ash-Shu'araa : 22
وَ تِلْكَ نِعْمَةٌ تَمُنُّهَا عَلَیَّ اَنْ عَبَّدْتَّ بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْلَؕ
وَتِلْكَ : اور یہ نِعْمَةٌ : کوئی نعمت تَمُنُّهَا عَلَيَّ : تو اس کا احسان رکھتا ہے مجھ پر اَنْ عَبَّدْتَّ : کہ تونے غلام بنایا بَنِيْٓ اِسْرَآءِيْلَ : بنی اسرائیل
اور (کیا) یہی احسان ہے جو آپ مجھ پر رکھتے ہیں کہ آپ نے بنی اسرائیل کو غلام بنا رکھا ہے ؟
ان عبدت بنی اسرائیل، کی تفسیری اقوال۔ 22۔ وتلک نعمۃ تمنھاعلی، ،، ، اس کی تاویل میں مفسرین کے مختلف اقوال ہیں۔ بعضنے اس کو اقرار پر محمول کیا ہے اور بعض نے انکار پر محمول کیا ہے۔ جو حضرات اس کو اقرار پر محمول کرتے ہیں انہوں نے حضرت موسیٰ کے اقرار کو ایک نعمت شمار کیا ہے۔ تونے مجھے زندہ چھوڑ کر اور پالا اور دسرے اسرائیلی بچوں کی طرح قتل نہیں کرایا، گویا حضرت موسیٰ نے فرمایا بیشک یہ تیرا احسان ہے جو تو مجھے جتلارہا ہے کہ بنی اسرائیل تونے غلام بنائے رکھے اور مجھے چھوڑ دیا یعنی غلام نہیں بنایا، اور جو اس کو انکار پر محمول کرتے ہیں تو وہ اس نعمت کو بطور استفہام کے نقل کرتے ہیں اور حرف استفہام کو محذوف کردیا گیا۔ یعنی یہ احسان جس کو تونے ذکر کیا ہے کوئی احسان ہے بلکہ تونے بنی اسرایئل کو غلام بنارکھا ہے بنی اسرائیل کو غلام بنائے رکھنے کی صورت میں یہ تربیت کوئی احسان نہیں میری قوم کو تونے غلام بنائے رکھا اور میری تربیت کی یہ کوئی احسان ہے۔ یعنی تونے مجھے ان سے دور رکھا اور ان کے قتل سے محفوظ رکھا اور تیرے پاس پہنچ گیا اور تونے میری پرورش اور کفالت کی اگر تو بنی اسرائیل کو حد سے زیادہ ذلیل نہ کرتا اور ان کے لڑکوں کو قتل نہ کرتا تو میرے گھروالے میری پرورش کرتے اور دربار میں مجھے نہ پھینکتے ، اور تیرے مکان میں نہ لایاجاتا، (عبدت) یعنی تونے مجھے بندہ بنایا۔ جیسا کہ کہاجاتا ہے، عبدت فلانا، تونے مجھے غلام بنائے رکھا۔
Top