Tafseer-e-Baghwi - Aal-i-Imraan : 186
لَتُبْلَوُنَّ فِیْۤ اَمْوَالِكُمْ وَ اَنْفُسِكُمْ١۫ وَ لَتَسْمَعُنَّ مِنَ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْكِتٰبَ مِنْ قَبْلِكُمْ وَ مِنَ الَّذِیْنَ اَشْرَكُوْۤا اَذًى كَثِیْرًا١ؕ وَ اِنْ تَصْبِرُوْا وَ تَتَّقُوْا فَاِنَّ ذٰلِكَ مِنْ عَزْمِ الْاُمُوْرِ
لَتُبْلَوُنَّ : تم ضرور آزمائے جاؤگے فِيْٓ : میں اَمْوَالِكُمْ : اپنے مال وَاَنْفُسِكُم : اور اپنی جانیں وَلَتَسْمَعُنَّ : اور ضرور سنوگے مِنَ : سے الَّذِيْنَ : وہ لوگ جنہیں اُوْتُوا الْكِتٰبَ : کتاب دی گئی مِنْ قَبْلِكُمْ : تم سے پہلے وَمِنَ : اور۔ سے الَّذِيْنَ اَشْرَكُوْٓا : جن لوگوں نے شرک کیا (مشرک) اَذًى : دکھ دینے والی كَثِيْرًا : بہت وَاِنْ : اور اگر تَصْبِرُوْا : تم صبر کرو وَتَتَّقُوْا : اور پرہیزگاری کرو فَاِنَّ : تو بیشک ذٰلِكَ : یہ مِنْ : سے عَزْمِ : ہمت الْاُمُوْرِ : کام (جمع)
(اے اہل ایمان) تمہارے مال و جان میں تمہاری آزمائش کی جائے گی۔ اور تم اہل کتاب سے اور ان لوگوں سے جو مشرک ہیں بہت سی ایذا کی باتیں سنو گے۔ تو اگر صبر اور پرہیزگاری کرتے رہو گے تو یہ بہت بڑی ہمت کے کام ہیں۔
(شان نزول) (تفسیر) 186۔ : (آیت)” لتبلون فی اموالکم وانفسکم “۔ عکرمہ ؓ ، مقاتل (رح) ، کلبی (رح) ، ابن جریج (رح) ، فرماتے ہیں کہ یہ آیت ابی بکر اور فخاض بن عاز وراء کے متعلق نازل ہوئی ، اس کا واقعہ یہ ہوا کہ نبی کریم ﷺ نے حضرت ابوبکر صدیق ؓ کو فخاض بن عاز وراء بنو قینقاع کے سردار کے پاس کچھ مالی تعاون کے لیے بھیجا اور ایک تحریر بھی لکھ دی اور حضرت ابوبکر صدیق ؓ سے فرمایا کہ میرے بغیر تیری میں کچھ حرکت نہ کر بیٹھنا یہاں تک کہ آپ میرے پاس لوٹ آئے ، حضرت ابوبکر صدیق ؓ گردن میں تلوار لٹکائے فخاض کے پاس پہنچے اور اس کو تحریر نامہ دیا ، جب اس نے پڑھا تو کہنے لگا کہ تیرا رب محتاج ہوگیا کہ وہ ہم سے مدد طلب کرتا ہے (نعوذ باللہ) یہ سن کر حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے تلوار کی ضرب لگانی چاہی مگر آپ ﷺ کا فرمان یاد آگیا کہ واپس آجانا تیزی سے کوئی کام نہ کرلینا آپ اس بات سے رک گئے اس پر یہ آیت نازل ہوئی ۔ (نبی کریم ﷺ کی شان میں گستاخی کرنے والے کا برا انجام) زہری (رح) کا قول ہے اس آیت کا نزول کعب بن اشرف کے بارے میں ہوا کیونکہ وہ آپ ﷺ کے خلاف ہجو اور مسلمانوں کو گالیاں دیتا تھا اور مشرکین کو اپنا اشعار میں آپ ﷺ اور آپ ﷺ کے صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین کے خلاف ورغلاتا تھا اور مسلمانوں کی عورتوں کے خلاف اشعار پڑھتا تھا ، آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ کون ہے جو اس کا بدلہ لے کہ کعب بن اشرف نے اللہ اور اس کے رسول ﷺ کو اذیت پہنچائی ہے محمد بن سلمہ انصاری اس وقت موجود تھے ، انہوں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول ﷺ میں یہ کام سرانجام دوں گا میں اس کو قتل کروں گا ، آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ تو اس طرح کر گزر، اس کے بعد محمد بن سلمہ واپس لوٹے اور تین تن تک نہ انہوں نے کھانا کھایا اور نہ پانی پیا مگر اتنی مقدار میں جس سے زندگی برقرار رہے ، اس بات کا تذکرہ آپ ﷺ کے سامنے کیا گیا ، آپ ﷺ نے ان کو بلایا اور ان سے فرمایا کہ آپ نے کھانا پینا کیوں چھوڑ رکھا ہے ؟ فرمایا اے اللہ کے رسول ! ﷺ میں ایسی بات کہہ چکا ہوں اب معلوم نہیں کہ وہ مجھے پورا ہوگا یا نہیں ، آپ ﷺ نے فرمایا تمہارے اوپر کوشش کرنا ہے ، انہوں نے کہا اے اللہ کے رسول ﷺ آپ اجازت دیں کہ اگر میں ذومعنی کچھ نازیبا الفاظ اس کے سامنے کہہ دوں (تو آپ ناراض تو نہیں ہوں گے) آپ ﷺ نے اس بات کی اجازت دے دی۔ (کعب بن اشرف کو قتل کرنے کے لیے ابو نائلہ اور محمد بن مسلمہ ؓ کا جانا) کعب بن اشرف کو قتل کرنے کے لیے محمد بن سلمہ ؓ ، سلکان بن سلام اور ابو نائلہ یہ دونوں کعب کے رضاعی بھائی تھے ، عباد بن بشر حارث بن اوس اور ابو عیسیٰ بن جبیر بھی ان کے ساتھ تھے ، آپ ﷺ ان کو الوداع کرنے بقیع الغرقد تک گئے ، پھر ان کو ارشاد فرمایا کہ آپ سب چلو اللہ کے اس بابرکت نام کے ساتھ وہ ہے ” اللھم اعنھم “۔ پھر آپ ﷺ واپس لوٹ آئے یہ چاندنی رات تھی جس میں وہ چل پڑے تھے ، یہاں تک کہ ان کے پاس محل میں پہنچ گئے ، ابونائلہ کو انہوں نے آگے بھیجا اور وہ اس کے پاس آیا اور اس کے ساتھ کچھ دیر باتیں کرنے لگا اور اشعار بھی پڑھنے لگا چونکہ ابو نائلہ بھی شعر کہا کرتے تھے پھر ابو نائلہ بولے ابن اشرف تو ہلاک ہو ، میں تمہارے پاس ایک کام کی غرض سے آیا ہوں اس کا ذکر میں تم سے کرتا ہوں لیکن اس کا تذکرہ کسی کے ساتھ نہیں کرنا ، کعب بن اشرف نے کہا کہ جی ہاں ایسا ہی ہوگا ، ابو نائلہ کہنے لگے کہ اس شخص کا ہمارے شہر میں آنا ہمارے لیے نامناسب بن گیا ہے تمام عرب ہمارا دشمن ہوگیا ہے اور ہمارے مقابلے میں ایک کمان بن گیا ہے، ہمارے سفر کے راستے منقطع ہوگئے ، یہاں تکہ بال بچے بھوک سے مرنے لگے ہیں اور ہم سخت دشواریوں میں پڑگئے ، کعب کہنے لگا کہ میں اشرف کا بیٹا ہوں ، میں نے تمہیں پہلے ہی بتادیا تھا کہ ایسا ہی ہونا ہے ابو نائلہ نے کہا کہ میرے ساتھ میرے اور ساتھی بھی ہیں ہم سب چاہتے ہیں کہ تم ہمارے ہاتھ کچھ غلہ فروخت کر دو ، ہم تمہارے پاس کچھ رہن رکھ دیں گے اور تمہارا اعتماد کرا دیں گے تم ہم سے اتنا سلوک کر دو ۔ کعب بن اشرف نے کہا کہ تم اپنے بیٹے ہمارے پاس رہن رکھ لو ، ابو نائلہ نے کہا ہم کو شرم آتی ہے کہ اپنی اولاد کو رہن ہونے کی عار میں مبتلا کردیں ، آئندہ آنے والے لوگ یہ کہیں کہ یہ وہی ہیں جو ایک وسق یا دو وسق کے عوض رہن رکھے گئے تھے ۔ کعب نے کہا کہ تم اپنی عورتیں ہمارے پاس رہن رکھ دو ، ابو نائلہ کہنے لگے کہ ہم اپنی عورتیں آپ کے پاس کس طرح رہن رکھیں تم عرب کے حسین ترین شخص ہو ہم تمہاری طرف سے بےخطر نہیں ہیں تمہاری خوبصورتی کو دیکھ کر کون عورت تم سے بچ سکتی ہے ، البتہ اسلحہ تمہارے پاس رہن رکھ سکتے ہیں اور تم واقف ہی ہو کہ ہم کو اسلحہ کی کتنی ضرورت ہے ، کعب بن اشرف نے کہا جی ہاں ۔ ابو نائلہ نے چاہا کہ کعب ہتھیاروں کو دیکھ کر کہیں انکار نہ کردے ، اس لیے اس سے دوبارہ آنے کا وعدہ کرکے لوٹ آئے اور اپنے ساتھیوں کو آکر اطلاع دے دی ، سب نے باتفاق رائے یہ طے کرلیا کہ شام کو مقررہ وعدہ کے مطابق کعب کے پاس جائیں گے پھر رات کو آکر رسول اللہ ﷺ کو اس تدبیر اور گفتگو کی اطلاع دے دی ، پھر ابو نائلہ حسب وعدہ رات کے وقت اس کے پاس آئے ، گڑھی کے پاس آکر ابو نائلہ نے اس کو آواز دی ، ابن اشرف کی شادی نئی نئی ہوئی تھی ، آواز سن کر وہ چادر لپیٹے ہی اٹھ کھڑا ہوا بیوی نے چادر کا کونہ پکڑ لیا اور کہنے لگی کہ میں ایسی آواز سن رہی ہوں جس سے خون ٹپک رہا ہے آپ گڑھی کے اوپر سے ہی ان سے گفتگو کرلیں ، اور آپ جنگی آدمی ہیں اور جنگی آدمی اس وقت نہیں اترا کرتے وہ کہنے لگا کہ وہ میرا بھانجا محمد بن مسلمہ ہے جو میرا رضاعی بھائی نائلہ ہے اگر یہ لوگ مجھے سوتا پائیں گے تو مجھے جگا دیں گے اور شریف آدمی کو اگر رات میں نیزوں کی طرف بھی بلایا جائے تو وہ قبول کرتا ہے تو وہ ان کی طرف اتر آیا ، وہ اس کے ساتھ کچھ دیر باتیں کرتے رہے، پھر کہنے لگے اے ابن اشرف ! چلو شعب عجوز تک ٹہلتے ہوئے چلیں ، وہاں پہنچ کر باقی رات باتیں کریں گے، کعب نے کہا کہ اگر چاہتے ہو تو چلیں ، ابونائلہ نے اپنے ساتھیوں سے کہہ دیا تھا کہ میں اس کے بال خوشبو سونگھنے کے لیے ہاتھ میں پکڑوں گا جب تم دیکھ لو کہ میں نے اس کے بال مضبوطی سے پکڑ لئے تو اپنا کام تمام کرنا اور تلواروں سے اس پر حملہ کرنا، پھر وہ چلتے ہوئے نائلہ نے اپنا ہاتھ مبارک اس کے بالوں سے لگایا اور سونگھا اور کہنے لگے کہ آج تمہاری طرف سے خوشبو کی مہک آرہی ہے کعب نے جواب دیا فلاں عورت جو عرب کی عورتوں میں سب سے زیادہ معطر رہنے والی ہے میری بیوی ہے ، ابو نائلہ نے کہا کہ کیا مجھے سونگھنے کی اجازت ہے ، کعب نے کہا ہاں ابو نائلہ نے اپنا ہاتھ کعب کے سر میں ڈالا پھر اپنے ہاتھ کو سونگھا اور کہا آج کی رات کی طرح میں نے کبھی کوئی خوشبو نہیں سونگھی پھر کچھ دیر مزید چلے پھر وہی عمل کیا جو پہلے کیا تھا ، پھر اور چلے اور پہلے کی طرح دوبارہ اس کے بالوں کو سونگھا پھر اس کے بعد اس کے سر کو مضبوطی کے ساتھ پکڑا اور کہا دشمن خدا کو مارو فورا تلواریں چلیں لیکن تلواروں کے اختلاف سے کچھ فائدہ نہیں ہوا محمد بن مسلمہ نے کہا کہ وہ مجھے خنجر یاد آگیا جو تلوار میں ، میں نے رکھا تھا ، فورا وہ خنجر میں نے ہاتھ میں لے لیا ، دشمن خدا نے ایک زور دار چیخ ماری ، چیخ کے ساتھ ہی ہمارے آس پاس کی تمام گڑھیاں روشن ہوگئیں ، میں نے خنجر اس کی پیٹھ میں گھونپ دیا اور خنجر پر دباؤ ڈال کر پیڑو کی ہڈی تک پہنچا دیا اور اللہ کا دشمن گرپڑا ، جب اس کو تلواروں سے حملہ کیا گیا تھا تو تلواروں کے مختلف ہونے کی وجہ سے حارث بن اوس کے سر میں چوٹ لگ گئی تھی ، صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین فرماتے ہیں کہ ہم وہاں سے نکلے ہم پہرے دار یہودیوں کے ڈر کی وجہ سے وہاں سے نکل کر تیزی سے بھاگے مگر ہمارا ساتھی حارث بن اوس سر کی چوٹ اور خون نکل جانے کی وجہ سے پیچھے رہ گیا اور اس نے ساتھیوں کو پکار کر کہا رسول اللہ ﷺ کو میرا سلام کہہ دینا آواز سن کر لوگ اس کی طرف مڑے اور اٹھا کرلے آئے آپ ﷺ کی خدمت میں چل دئیے ، وہاں پہنچ کر دیکھا کہ آپ ﷺ نماز پڑھ رہے تھے ، ہم نے آپ ﷺ کو سلام کیا وہ ہمارے پاس تشریف لے آئے ہم نے آپ ﷺ کو کعب کے قتل کی خوشخبری دی اور اس کا سر کاٹ کر آپ ﷺ کے پاس لے آئے اور آپ ﷺ نے ہمارے ساتھی کے زخم پر تھتکارا جس کی وجہ سے زخم نے تکلیف نہیں پہنچائی اور لوگ اپنے گھروں کو لوٹ گئے۔ صبح کے وقت آپ ﷺ نے اعلان کردیا کہ جو یہودی تمہارے ہاتھ لگے اس کو قتل کر دو ، سفینہ یہودیوں کا تاجر تھا جس کا مسلمانوں سے اختلاط تھا وہ مسلمانوں میں خریدوفروخت کیا کرتا تھا محیصہ بن مسعود ؓ نے اس کو قتل کردیا ، محیصہ کا ایک بڑا بھائی خویصہ تھا اس وقت تک مسلمان نہیں ہوا تھا خویصہ نے محیصہ کو مارا اور کہا اے اللہ کے دشمن ! تو نے اس کو قتل کردیا حالانکہ خدا کی قسم ، تیرے پیٹ کے اندر جتنی چربی ہے اس کا اکثر حصہ اسی کے مال سے پیدا ہوا ہے ، محیصہ نے کہا کہ اگر محمد ﷺ مجھے تیرے قتل کرنے کا حکم دیدیں تو میں تیری گردن بھی اتار دوں گا ، وہ کہنے لگا واقعی اگر محمد ﷺ تجھے میرے قتل کرنے کا حکم دے دیں تو تم مجھے قتل کر دو گے، محیصہ نے کہا جی ہاں ۔ خویصہ کہنے لگا اچھا جس دین نے تجھے اس حد تک پہنچادیا خدا کی قسم ! وہ تو عجب دین ہے اس کے بعد خویصہ بھی مسلمان ہوگیا ، اللہ تعالیٰ نے کعب کے واقعہ کے متعلق یہ آیات نازل فرمائی ” لتبلون “۔ ہم تمہیں ضرور بضرور خبر دیں گے ، لام تاکید یہ ہے اور قسم کے معنی میں ہے اور نون تاکید بھی قسم کے لیے ہے ، ” فی اموالکم “ سے مراد مالی مصائب ، تباہیاں ، آفات اور تجارتی گھاٹا ” وانفسکم “ اور تمہارے نفسوں کو مرض میں مبتلا کر کے، بعض نے کہا کہ تمہارے اقارب کے مصائب اور تمہارے گھر والوں کی مشکلات کے باعث تمہیں تکالیف دیں گے ، عطاء فرماتے ہیں ان سے مراد مہاجرین ہیں جنہوں نے مشرکوں سے اموال وغیرہ قرض لیے تھے ، پھر ان کو تکالیف دیتے تھے ، حسن (رح) ، فرماتے ہیں کہ اس سے مراد وہ اعمال جو ان کے نفسوں اور مالوں پر فرض کیے گئے تھے ، جیسا کہ نماز، روزہ ، حج ، جہاد ، زکوۃ ، (آیت)” ولتسمعن من الذین اوتوالکتاب من قبلکم “۔ اس سے مراد یہود و نصاری ہیں ، (آیت)” ومن الذین اشرکوا “۔ سے عرب کے مشرکین ہیں ۔ (آیت)” اذی کثیرا وان تصبروا “۔ اگر اس اذیت پر صبر کریں ، ” وتتقوا “۔ اور اللہ سے ڈریں ، (آیت)” فان ذلک من عزم الامور “۔ یعنی ان امور میں سے جن کا تاکیدی حکم دیا ہے، عطاء (رح) نے عزم الامور کا ترجمہ حقیقت ایمان کیا ہے۔
Top