Tafseer-e-Baghwi - Al-Ahzaab : 32
یٰنِسَآءَ النَّبِیِّ لَسْتُنَّ كَاَحَدٍ مِّنَ النِّسَآءِ اِنِ اتَّقَیْتُنَّ فَلَا تَخْضَعْنَ بِالْقَوْلِ فَیَطْمَعَ الَّذِیْ فِیْ قَلْبِهٖ مَرَضٌ وَّ قُلْنَ قَوْلًا مَّعْرُوْفًاۚ
يٰنِسَآءَ النَّبِيِّ : اے نبی کی بیبیو لَسْتُنَّ : نہیں ہو تم كَاَحَدٍ : کسی ایک کی طرح مِّنَ النِّسَآءِ : عورتوں میں سے اِنِ : اگر اتَّقَيْتُنَّ : تم پرہیزگاری کرو فَلَا تَخْضَعْنَ : تو ملائمت نہ کرو بِالْقَوْلِ : گفتگو میں فَيَطْمَعَ : کہ لالچ کرے الَّذِيْ : وہ جو فِيْ قَلْبِهٖ : اس کے دل میں مَرَضٌ : روگ (کھوٹ) وَّقُلْنَ : اور بات کرو تم قَوْلًا : بات مَّعْرُوْفًا : اچھی ( معقول)
اے پیغمبر ﷺ کی بیویو ! تم اور عورتوں کی طرح نہیں ہو اگر تم پرہیزگار رہنا چاہتی ہو تو (کسی اجنبی شخص سے) نرم نرم باتیں نہ کرو تاکہ وہ شخص جس کے دل میں کسی طرح کا مرض ہے کوئی امید (نہ) پیدا کرے اور دستور کے مطابق بات کیا کرو
32، یا نساء النبی لستن کا حد من النسائ، حضرت ابن عباس ؓ نے یہ مطلب بیان کیا کہ دوسری نیک مؤمن عورتوں کے برابر میرے نزدیک تمہارا مرتبہ نہیں ہے بلکہ میرے نزدیک تمہاری عزت اور تمہاراثواب بہت زیادہ ہے ۔ احد کی اصل وحد تھی اور وحد بمعنی واحد ہے۔ لفظ احد کی وضع ثانوی عمومی نفی کے لیے ہے ۔ مذکر، مؤ نث اور واحد جمع سب کے لیے اس کا استعمال کیا جاتا ہے ۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : لا نفرق بین احد من رسلہ، اور دوسری جگہ ارشاد فرمایا ، فما منکم احد عنہ حاجزین،۔۔۔۔۔۔ ، ان اتقیتن ، اگر اللہ اس کے رسول کی رضا مندی سے بچی رہوگی ۔ ، فلا تخضعن بالقول ، مردوں کے ساتھ بات کرنے میں نرمی اختیا رنہ کرو اور نہ ہی بات کو خوبصورت انداز میں پیش کرو۔ ، فیطمع الذی فی قلبہ مرض ، مرض سے مراد فجو ر اور شہوت ہے۔ بعض نے کہا کہ نفاق ہے۔ آیت کا معنی یہ ہے کہ بات ایسی نہ کرو جس کی وجہ سے منافق وفاجر کے دل میں طمع پیدا ہوجائے۔ مراداس سے یہ ہے کہ اپنی بات میں سختی پیدا کروجب غیر مرد کے ساتھ مخاطب ہوں تا کہ ان کی طمع ختم ہوجائے۔ ، وقلن قولا معروفا، دین اور اسلا م کے موافق بات کرو۔
Top