Tafseer-e-Baghwi - Al-Ahzaab : 57
اِنَّ الَّذِیْنَ یُؤْذُوْنَ اللّٰهَ وَ رَسُوْلَهٗ لَعَنَهُمُ اللّٰهُ فِی الدُّنْیَا وَ الْاٰخِرَةِ وَ اَعَدَّ لَهُمْ عَذَابًا مُّهِیْنًا
اِنَّ : بیشک الَّذِيْنَ : جو لوگ يُؤْذُوْنَ : ایذا دیتے ہیں اللّٰهَ : اللہ وَرَسُوْلَهٗ : اور اس کا رسول لَعَنَهُمُ : ان پر لعنت کی اللّٰهُ : اللہ فِي الدُّنْيَا : دنیا میں وَالْاٰخِرَةِ : اور آخرت وَاَعَدَّ : اور تیار کیا اس نے لَهُمْ : ان کے لیے عَذَابًا مُّهِيْنًا : رسوا کرنے والا عذاب
اور جو لوگ خدا اور اسکے پیغمبر کو رنج پہنچاتے ہیں ان پر خدا دنیا اور آخرت میں لعنت کرتا ہے اور ان کے لئے اس نے ذلیل کرنے والا عذاب تیار کر رکھا ہے
تفسیر 57، ان الذین یؤذون اللہ ورسولہ لعنھم اللہ فی الدنیاوالا خرۃ واعدلھم عذابا مھینا ، حضرت ابن عباس ؓ فرماتے ہیں کہ ان لوگوں سے مراد ہیں یہودی عیسائی اور مشرک یہودی تو کہتے تھے، عزیز ابن اللہ اور یداللہ مغلولۃ اور، ان اللہ فقیرونحن اغنیاء ، اور عیسائی کہتے تھے، المسیح ابن اللہ، کہتے تھے، ان اللہ ثالث ثلثہ، اور مشرک کہتے تھے ملائکہ خدا کی بیٹیاں ہیں اور بت اللہ تعالیٰ کے ساجھی ہیں۔ حدیث قدسی نبی کریم ﷺ سے مروی ہے فرماتے ہیں کہ اللہ عزوجل نے فرمایا کہ میرے بندے نے مجھے گالی دی ، اس نے کہا کہ اللہ کا بیٹا ہے حالا ن کہ میں اکیلا ہوں ، بےنیازہوں ، وہ ذات جو نہ جنا گیا اور نہ کسی کو اس سے جنا گیا اور اس کا کوئی ہم سر نہیں ۔ نبی کریم ﷺ سے روایت منقول ہے فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ ابن آدم زمانے کو گالی دیتا ہے اور میں زمانہ ہوں، اسی کے ہاتھ میں سب امور ہیں جو دن اور رات کو پلٹتا ہے۔ بعض نے کہا کہ اذیت پہنچا نے سے مراد ہے کہ اللہ کے اسماء صفات میں کج روی اختیار کرنا۔ عکر مہ کا بیان ہے کہ وہ خدا کو اذیت دینے والے مصور ہیں۔ حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ میں نے خود رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اس شخص سے بڑھ کر ظالم کون ہے جو میری تخلیق کی طرح پیدا کرنے چلا ہے۔ ایک چھوٹی چیوٹنی تو بنالیں ایک دانہ یا ایک جو تو بنالیں۔ حضرت ابوہریرہ ؓ کی روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اللہ فرماتا ہے کہ جو (میرے) کسی ولی کی ہانت کرتا ہے، دوسری روایت کا لفظ ہے کہ جو (میرے) ولی سے دشمنی کرتا ہے ، وہ جنگ کے لیے میرے مقابلہ پر آتا ہے اور جو کام میں کرنے والا ہوتا ہوں اس میں مجھے (کبھی) اتنا تردو نہیں ہوتاجتنا تردد اپنے مؤمن بندہ کی روح قبض کرنے میں ہوتا ہے کہ وہ مرنا پسند نہیں کرتا اور میں اس کو ناراض کرنا نہیں چاہتا اور مرنا اس کے لیے لازم ہوتا ہے ۔ میرے مؤمن بندہ کو میرا قرب (کسی عمل سے) اتنا حاصل نہیں ہوتا جتنا دنیا سے بےرغبت رہنے سے ہوتا ہے اور بندئہ مؤمن میری کوئی عباد ت ایسی نہیں کرتا جیسی میرے عائد کیے ہوئے فرض ادا کرکے کرتا ہے۔ (یعنی فرض کی ادا ئیگی سب سے بڑی عبادت ہے، اس کے برابر کوئی عبادت نہیں ) ۔ حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا ، لوگوں نے اللہ کے رسول ﷺ کے چہرے کو زخمی کردیا۔ حضور ﷺ کا دانت مبارک شہید کردیا کسی نے ساحرکہا کسی نے شاعر کسی نے دیوانہ پاگل ۔
Top