Tafseer-e-Baghwi - Az-Zumar : 53
قُلْ یٰعِبَادِیَ الَّذِیْنَ اَسْرَفُوْا عَلٰۤى اَنْفُسِهِمْ لَا تَقْنَطُوْا مِنْ رَّحْمَةِ اللّٰهِ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ یَغْفِرُ الذُّنُوْبَ جَمِیْعًا١ؕ اِنَّهٗ هُوَ الْغَفُوْرُ الرَّحِیْمُ
قُلْ : فرمادیں يٰعِبَادِيَ : اے میرے بندو الَّذِيْنَ : وہ جنہوں نے اَسْرَفُوْا : زیادتی کی عَلٰٓي : پر اَنْفُسِهِمْ : اپنی جانیں لَا تَقْنَطُوْا : مایوس نہ ہو تم مِنْ : سے رَّحْمَةِ اللّٰهِ ۭ : اللہ کی رحمت اِنَّ اللّٰهَ : بیشک اللہ يَغْفِرُ : بخش دیتا ہے الذُّنُوْبَ : گناہ (جمع) جَمِيْعًا ۭ : سب اِنَّهٗ : بیشک وہ هُوَ : وہی الْغَفُوْرُ : بخشنے والا الرَّحِيْمُ : مہربان
(اے پیغمبر ﷺ میری طرف سے لوگوں سے) کہہ دو کہ اے میرے بندو جنہوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کی ہے خدا کی رحمت سے ناامید نہ ہونا خدا تو سب گناہوں کو بخش دیتا ہے (اور) وہ تو بخشنے والا مہربان ہے
قل یعبادی الذ ین اسرفواعلی انفسھم کی تفسیر 53، قل یا عبادی الذ ین اسرفواعلی انفسھم لاتقنطوامن رحمۃ اللہ ، سعید بن جبیر (رح) کا بیان ہے وہ ابن عباس ؓ سے نقل کرتے ہیں کہ کچھ مشرک ایسے تھے جنہوں نے بہت آدمیوں کو قتل کیا تھا اور ارتکاب زنا بھی بہت کیا تھا۔ یہ لوگ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا : آپ جو کچھ فرماتے ہیں اور جس امر کی دعوت دیتے ہیں ، وہ ہے تو اچھا کیا آپ بتائیں گے کہ اس سے ہماری بداعمالیوں کا بھی کفارہ ہوجائے گا ؟ اس پر سورة فرقان کی آیت ، والذین لا یدعون مع اللہ الھا اخر۔۔۔۔۔۔۔ غفورارحیما، تک اور آیت ، قل یا عبادی الذین اسرفواعلی انسھم الخ، نازل ہوئی۔ ابن ابی حاتم نے بسندصحیح بیان کیا ہے کہ حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا : یہ آیت مشرکین مکہ کے متعلق نازل ہوئی۔ بغوی نے بروایت عطاء بھی اس قول کی نسبت حضرت ابن عباس ؓ کی طرف کی ہے۔ حضرت ابن عباس ؓ کا بیان نقل کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے وحشی کو جو حضرت حمزہ ؓ کا قاتل تھا، اسلام کی دعوت دینے کے لیے ایک شخص کو بھیجا وحشی نے جواب دیا : آپ مجھے اپنے مذہب میں داخل ہونے کی دعوت کس طرح دے رہے ہیں ؟ آپ کا قول یہ ہے کہ جو شخص قتل کرے گایا شرک کرے گا، یازنا کرے گا اس کو قیامت کے دن دہرا عذاب ہوگا اور میں نے یہ سب کچھ کیا ہے۔ اس پر آیت ، الا من تاب وامن وعمل عملا صالحا، نازل ہوئی۔ وحشی نے کہا : یہ شرط تو سخت ہے ، شاید میں ایسا نہ کرسکوں، کیا اس کے علاوہ بھی کوئی صورت ہے ؟ اس پر آیت ، ان اللہ لایغفران یشرک بہ ویغفر مادون ذلک لمن یشائ، نازل ہوئی۔ وحشی نے کہا :(اس آیت میں مغفرت کو مشیت پر موقوف رکھا گیا ہے) اشتباہ میں پڑا ہواہوں ، معلوم نہیں کہ (اگر میں شرک سے توبہ کرلوتو) میری مغفرت ہوگی یا نہیں ہوگی۔ اس پر آیت ، قل یاعبادی الایۃ، نازل ہوئی ۔ اس روایت میں اتنا زائد ہے کہ مسلمانوں نے عرض کیا : یارسول اللہ ! یہ بات صرف وحشی کے لیے خاص ہے یا تمام مسلمانوں کے لیے عمومی (حکم) ہے ؟ خضور ﷺ نے فرمایا :(نہیں) بلکہ سارے مسلمانوں کے لیے یہ عام ہے۔ حضرت ابن عمر ؓ کی روایت سے بیان کیا ہے کہ اس آیت کا نزول عیاش بن ربیعہ ، ولید بن ولید اور مسلمانوں کی ایک ایسی جماعت کے حق میں ہوا کہ (شروع میں ) وہ ایمان لے آئے تھے، پھر جب ان کو دکھ اور تکلیفیں دی گئیں تو وہ فتنہ میں پڑگئے یعنی اسلام چھوڑ بیٹھے۔ ہم کہا کرتے تھے کہ اللہ ان کا کوئی عمل کبھی قبول نہیں کرے گا، نہ نفل نہ فرض ، یعنی کس طرح ان کی توبہ قبول نہ ہوگی ۔ یہ لوگ اول تو مسلمان ہوگئے ، پھر دکھ پڑنے پر اپنا دین چھوڑبیٹھے ، اس پر اللہ نے یہ آیات نازل فرمائیں ۔ حضرت عمر ؓ نے اپنے ہاتھ سے یہ آیات لکھ کر عیاش بن ربیعہ ، ولیدبن ولید اور دوسرے لوگوں کو بھیج دیں۔ تحریر ملنے کے بعد وہ لوگ مسلمان ہوگئے اور مکہ چھوڑ کر مدینہ میں آگئے۔ مقاتل بن حیان نے بتوسط نافع حضرت ابن عمر ؓ کا بیان نقل کیا ہے۔ حضرت ابن عمر نے فرمایا : ہم گروہ صحابہ خیال کرتے تھے اور کہتے تھے کہ ہماری ہرنی کی ضرور قبول ہوگی ۔ اس کے بعد جب آیت، یایھا الذین امنوا اطیعوا اللہ واطیعوا الرسول ولا تبطلوا اعمالکم، (اے ایمان والو ! اللہ کی اطاعت کرو اور اللہ کے رسول کے فرمان پر چلو اور اپنے اعمال کو بیکار نہ کردو) نازل ہوئی تو ہم اپنے اعمال کو سوائے اس کے کہ کبیرہ گناہ کریں اور فواحش کا ارتکاب کریں اور کس طرح باطل کرسکتے ہیں۔ یہ خیال کرنے کے بعد جب ہم کسی کو کوئی کبیرہ گناہ کرتے دیکھتے تو کہتے : یہ شخص تباہ ہوگیا۔ اس کے بعد یہ آیت ، قل یعبادی الذین اسرفوا، نازل ہوئی تو ہم اپنے دونوں قولوں سے رک گئے۔ اس کے بعد ہم کسی کو کوئی گناہ کرتے دیکھتے تو ہم کو اس کے متعلق (بربادی اعمال کا) خوف ہوجاتا اور اگر کسی نے ارتکاب گنا ہ نہ کیا ہوتا توہم کو اس کے متعلق (قبول اعمال کی) امید ہوتی۔ روایت ہے کہ حضرت ابن مسعود ؓ مسجد میں تشریف لے گئے ، وہاں ایک واعظ ، وعظ کہہ رہا تھا اور دوزخ کا اور دوزخ کے طوق و زنجیر کا ذکر کر رہا تھا۔ آپ جاکرا س کے سرکے پیچھے کھڑے ہوگئے اور کہا : اے وعظ کرنے والے ! لوگوں کو نامیدکررہا ہے ؟ پھر آپ نے آیت ، قل یعبادی الذین اسرفوا الایۃ، پڑھی۔ حضرت اسماء بنت زید کا بیان ہے کہ میں نے (رح) خود سنا، رسول اللہ ﷺ نے پڑھا تھا : قل یعبا دی الذین اسرفو اعلی انفسھم لاتقنطوامن رحمۃ اللہ ان اللہ یغفرالذنوب جمیعاولا یبالی، (یعنی اللہ کی رحمت سے ناامید مت ہو ، اللہ سب گناہ معاف کردے گا اور (کسی کے ) گناہ کی پروا نہیں کرے گا) ۔ ، ان اللہ یغفرالذنوب جمیعا انہ ھو الغفورالرحیم،
Top