Tafseer-e-Baghwi - An-Nisaa : 132
وَ لِلّٰهِ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَ مَا فِی الْاَرْضِ١ؕ وَ كَفٰى بِاللّٰهِ وَكِیْلًا
وَ : اور لِلّٰهِ : اللہ کے لیے مَا : جو فِي : میں السَّمٰوٰتِ : آسمانوں وَمَا : اور جو فِي الْاَرْضِ : زمین میں وَكَفٰى : اور کافی بِاللّٰهِ : اللہ وَكِيْلًا : کارساز
(اور پھر سن رکھو کہ) جو کچھ آسمانوں میں اور جو کچھ زمین میں ہے سب خدا ہی کا ہے اور خدا ہی کار ساز کافی ہے
132۔ (آیت)” وللہ ما فی السموت وما فی الارض وکفی باللہ وکیلا “۔ عکرمہ (رح) ابن عباس ؓ کے حوالے سے لکھتے ہیں یعنی وہ گواہ ہیں جو اس میں غلام رہتے ہیں اور بعض نے کہا کہ اس سے مراد اجیر ہیں ۔ (آیت)” وللہ ما فی السموت وما فی الارض “ ۔ میں تکرار لانے کا کیا فائدہ ہے ، بعض نے کہا کہ ان کو جدا جدا ذکر کرنے میں مختلف وجوہات ہیں ۔ پہلی وجہ یہ ہے کہ اس کا معنی یہ ہے کہ (آیت)” للہ ما فی السموت وما فی الارض “ ۔ میں تمہیں تقوی کی وصیت کرتے ہیں ، لہذا اس کی وصیت قبول کرو اور دوسری وجہ یہ ہے کہ (آیت)” فان للہ ما فی السموت وما فی الارض وکان اللہ غنیا “۔ وہ غنی ہے اور اسی کے لیے بادشاہت ہے ۔ لہذا جو چیز تمہیں مطلوب ہے اسی سے طلب کرو، تیسری وجہ یہ ہے کہ (آیت)” وللہ ما فی السموت وما فی الارض وکفی باللہ وکیلا “۔ اس کی بادشاہت ہے اس کو کارساز بناؤ ، غیر پر بھروسہ نہ کرو۔
Top