Tafseer-e-Baghwi - An-Nisaa : 9
وَ لْیَخْشَ الَّذِیْنَ لَوْ تَرَكُوْا مِنْ خَلْفِهِمْ ذُرِّیَّةً ضِعٰفًا خَافُوْا عَلَیْهِمْ١۪ فَلْیَتَّقُوا اللّٰهَ وَ لْیَقُوْلُوْا قَوْلًا سَدِیْدًا
وَلْيَخْشَ : اور چاہیے کہ ڈریں الَّذِيْنَ : وہ لوگ لَوْ تَرَكُوْا : اگر چھوڑ جائیں مِنْ : سے خَلْفِھِمْ : اپنے پیچھے ذُرِّيَّةً : اولاد ضِعٰفًا : ناتواں خَافُوْا : انہیں فکر ہو عَلَيْھِمْ : ان کا فَلْيَتَّقُوا : پس چاہیے کہ وہ ڈریں اللّٰهَ : اللہ وَلْيَقُوْلُوْا : اور چاہیے کہ کہیں قَوْلًا : بات سَدِيْدًا : سیدھی
اور ایسے لوگوں کو ڈرنا چاہیے جو (ایسی حالت میں ہوں کہ) اپنے بعد ننھے ننھے بچے چھوڑ جائیں گے اور ان کو ان کی نسبت خوف ہو (کہ ان کے مرنے کے بعد ان بیچاروں کا کیا حال ہوگا) پس چاہیے کہ یہ لوگ خدا سے ڈریں اور معقول بات کہیں۔
(تفسیر) 9۔: (آیت)” ولیخش الذین لو ترکوا من خلفھم ذریۃ ضعافا “۔ ضعافا سے مراد چھوٹی اولاد ہے، ” خافوا علیھم “ فقر کے خوف سے، جب کسی شخص کو موت کا وقت قریب آجاتا ہے اس کے پاس جو ورثاء حاضر ہوتے ہیں اور اس کو وصیت کی جاتی ہے کہ میری اولاد اور میرے ورثاء میرے مال سے کوئی مستغنی نہ ہو تو وہ اپنے آپ کو مقدم کرے کہ فلاں کو آزاد کر دو اور فلاں فلاں کو عطا کرو۔ (یعنی عین تقسیم میراث کے وقت بعض ورثاء کو محروم کردیا جاتا ہے) اس سے اللہ تعالیٰ نے منع فرمایا ہے اس لیے حکم دیا گیا ہے کہ تہائی وصیت سے زائد قبول نہ کی جائے ، اسی طرح اگر کوئی وصیت کرنے والا چپکے سے اپنی اولاد کے بارے میں وصیت کرتا ہے تاکہ اس کا مال کوئی اور نہ لے ۔ کلبی (رح) کا بیان ہے حکم مذکورہ یتیموں کے سرپرستوں اور وصیت والوں کو دیا گیا کہ یتیموں کے معاملے میں اللہ سے ڈریں اور ان سے اچھا سلوک کریں جیسا اپنے ان کمزور بچوں کے ساتھ لوگوں سے سلوک کرانا پسند کرتے ہیں جو ان کے پیچھے رہ جائیں (آیت)” فلیتقوا اللہ ولیقولوا قولا سدیدا “۔ کا معنی ہے عدل ، اس کا معنی بعض نے یہ کیا کہ مرنے کے وقت موجود ہونے والے لوگ مرنے والے کو مشورہ دیں کہ وہ تہائی مال سے کم خیرات کرنے اور کسی کو دینے کی وصیت کرے اور باقی ورثاء میں تقسیم کر دے ۔
Top