Tafseer-e-Baghwi - Al-Maaida : 118
اِنْ تُعَذِّبْهُمْ فَاِنَّهُمْ عِبَادُكَ١ۚ وَ اِنْ تَغْفِرْ لَهُمْ فَاِنَّكَ اَنْتَ الْعَزِیْزُ الْحَكِیْمُ
اِنْ : اگر تُعَذِّبْهُمْ : تو انہیں عذاب دے فَاِنَّهُمْ : تو بیشک وہ عِبَادُكَ : تیرے بندے وَاِنْ : اور اگر تَغْفِرْ : تو بخشدے لَهُمْ : ان کو فَاِنَّكَ : تو بیشک تو اَنْتَ : تو الْعَزِيْزُ : غالب الْحَكِيْمُ : حکمت والا
اگر تو انکو عذاب دے تو یہ تیرے بندے ہیں۔ اور اگر بخش دے تو (تیری مہربانی ہے) بیشک تو غالب (اور) حکمت والا ہے۔
آیت نمبر 118 تفسیر : (ان تعذبھم فانھم عبادک وان تغفرلھم فانک انت العزیز الحکیم) شبہ اور اس کا ازالہ اگر یہ اعتراض ہو کہ عیسیٰ (علیہ السلام) نے ان کے کافر ہونے ک باوجود ان کی مغفرت کا مطالبہ کیسے کردیا۔ جواب 1 ۔ مطلب یہ ہے ہے کہ اگر کفر پر قائم ہونے کی حالت میں عذاب دے اور اگر ایمان لانے کے بعد ان کی مغفرت کردے۔ یہ جواب سدی (رح) کے قول پر درست ہے کہ یہ سوال قیامت کے دن سے پہلے ہوچکا کیونکہ قیامت میں ایمان نفع نہ دے گا۔ جواب 2 ۔ یہ دیا گیا کہ یہ قول دو جماعتوں کے متعلق ہے اگر ان میں سے کافروں کو آپ عذاب دیں اور مغفرت کریں ان کی جو ان میں سے ایمان لائے اور کہا گیا ہے کہ یہ مغفرت کو طلب کرنے کے لیے نہیں کہا گیا اگر اس طرح ہوتا تو یوں کہتے ” انت الغفورالرحیم “ لیکن یہ تو عیسیٰ (علیہ السلام) نے اللہ کے حکم پر سر جھکانیخ اور معاملہ اللہ کے سپرد کرنے کے لیے کہا ہے اور دوسرا سوال تو ابن مسعود ؓ اس کو ” ان تغفرلھم فانک انت الغفور لھم فانک انت الغفور الرحیم “ پڑھتے تھے اور ان کے مصحف میں بھی اسی طرح لکھا ہوا ہے اور مشہور قرأت کے بارے میں کہا گیا ہے کہ اس میں تقدیم و تاخیر ہے۔ اصل عبارت یوں ہے ” ان تغفرلھم فانھم عبادک وان تعذبھم فانک انت العزیز حکیم “ اور بعض نے کہا ہے کہ معنی یہ ہے کہ اگر آپ ان کو عذاب دیں تو وہ آپ کے بندے ہیں اور اگر آپ ان کی مغفرت کریں تو آپ اپنے ملک میں غالب اور اپنے فیصلہ میں حکیم ہیں۔ آپ کی عزت میں سے کچھ کم نہ ہوگا اور آپ کے حکم سے کوئی چیز خارج نہیں ہے اور آپ کی حکمت ، مغفرت وسعت رحمت میں کفار داخل ہوں گے لیکن آپ نے خبر دی کہ کفار کی مغفرت نہ کریں گے اور اللہ تعالیٰ اپنی خبر کیخلاف نہیں کرتے۔ عبداللہ بن عمرو بن العاص ؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے اللہ تعالیٰ کا فرمان ابراہیم (علیہ السلام) کے بارے میں تلاوت کیا ( رب انھن اضللن کثیرا من الناس فمن تبعنی فانہ منی) اے میرے رب ، بیشک ان لوگوں نے بہت سے لوگوں کو گمراہ کردیا، پس جو میرے پیچھے چلا پس بیشک وہ مجھ سے ہے) اور عیسیٰ (علیہ السلام) کا قول ” ان تعلمھم فانھم عبادک الخ “ تلاوت کیا اور اپنے ہاتھ اٹھائے اور کہا اے اللہ ! میری امت اور رو پڑے تو اللہ تعالیٰ نے جبرئیل (علیہ السلام) کو کہا اے جبرئیل محمد ﷺ کے پاس جائو حالانکہ تیرا رب جانتا ہے ان سے پوچھو کس چیز نے آپ کو رلایا ہے تو جبرئیل (علیہ السلام) آئے اور سوال کیا تو رسول اللہ ﷺ نے جو کہا تھا اس کی خبر دی تو جواب میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا اے جبرئیل ! محمد ﷺ کے پاس جائو اور ان کو کہہ دو کہ آپ کی امت کے بارے میں عنقریب ہم آپ کو راضی کریں گے اور آپ کو رسوا نہ کریں گے۔
Top