Tafseer-e-Baghwi - Al-A'raaf : 33
قُلْ اِنَّمَا حَرَّمَ رَبِّیَ الْفَوَاحِشَ مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَ مَا بَطَنَ وَ الْاِثْمَ وَ الْبَغْیَ بِغَیْرِ الْحَقِّ وَ اَنْ تُشْرِكُوْا بِاللّٰهِ مَا لَمْ یُنَزِّلْ بِهٖ سُلْطٰنًا وَّ اَنْ تَقُوْلُوْا عَلَى اللّٰهِ مَا لَا تَعْلَمُوْنَ
قُلْ : فرما دیں اِنَّمَا : صرف (تو) حَرَّمَ : حرام کیا رَبِّيَ : میرا رب الْفَوَاحِشَ : بےحیائی مَا : جو ظَهَرَ : ظاہر ہیں مِنْهَا : ان سے وَمَا : اور جو بَطَنَ : پوشیدہ وَالْاِثْمَ : اور گناہ وَالْبَغْيَ : اور سرکشی بِغَيْرِ الْحَقِّ : ناحق کو وَاَنْ : اور یہ کہ تُشْرِكُوْا : تم شریک کرو بِاللّٰهِ : اللہ کے ساتھ مَا : جو۔ جس لَمْ يُنَزِّلْ : نہیں نازل کی بِهٖ : اس کی سُلْطٰنًا : کوئی سند وَّاَنْ : اور یہ کہ تَقُوْلُوْا : تم کہو (لگاؤ) عَلَي : پر اللّٰهِ : اللہ مَا : جو لَا تَعْلَمُوْنَ : تم نہیں جانتے
کہہ دو کہ میرے پروردگار نے تو بےحیائی کی باتوں کو ظاہر یا پوشیدہ اور گناہ کو اور ناحق زیادتی کرنے کو حرام کیا ہے اور اس کو بھی کہ تم کسی کو خدا کا شریک بناؤ جس کی اس نے کوئی سند نازل نہیں کی۔ اور اس کو بھی کہ خدا کے بارے میں ایسی باتیں کہو جنکا تمہیں کچھ علم نہیں۔
(33) (قل انما حرم ربی الفواحش ماظھر منھا وما بطن) یعنی ننگے طواف کرنا۔” ماظھر “ مردں کا دن کو ننگے طواف کرنا اور ” مابطن “ عورتوں کا رات میں ننگے طواف کرنا۔ بعض نے کہا اعلانیہ اور چھپ کر زنا کرنا مراد ہے۔ عبداللہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ اللہ سے زیادہ کوئی غیرت والا نہیں اسی لئے تو کھلے اور پوشیدہ برے کاموں کو حرام کیا اور اللہ سے زیادہ کسی کو تعریف پسند نہیں اس لئے اپنی تعریف خود کی (والاثم ) یعنی چھوٹے اور بڑے گناہ کو اور ضحاک (رح) فرماتے ہیں کہ وہ گناہ مراد ہے جس میں حد جاری نہ ہو۔ حسن (رح) فرماتے ہیں اثم سے شراب مراد ہے۔ جیسا کہ اشعر کہتا ہے میں نے اثم یعنی شراب کو پیا تو میری عقل چلی گئی۔ اسی طرح اثم یعنی گناہ عقل کو ختم کردیتا ہے۔ (والبغی بغیر الحق) ظلم اور تکبر کو صوان تشرکوا باللہ مالم ینزل بہ سلطناً ) یعنی حجت اور برہان صوان تقولوا اعلی اللہ مالا تعلمون) کھیتی اور مویشی کی حرمت میں یہ مقاتل کا قول ہے اور باقی فرماتے ہیں کہ آیت عام ہے بغیر یقین کے دین میں کوئی بھی بات کہنا حرام ہے۔
Top