Tafseer-e-Baghwi - At-Tawba : 114
وَ مَا كَانَ اسْتِغْفَارُ اِبْرٰهِیْمَ لِاَبِیْهِ اِلَّا عَنْ مَّوْعِدَةٍ وَّعَدَهَاۤ اِیَّاهُ١ۚ فَلَمَّا تَبَیَّنَ لَهٗۤ اَنَّهٗ عَدُوٌّ لِّلّٰهِ تَبَرَّاَ مِنْهُ١ؕ اِنَّ اِبْرٰهِیْمَ لَاَوَّاهٌ حَلِیْمٌ
وَمَا كَانَ : اور نہ تھا اسْتِغْفَارُ : بخشش چاہنا اِبْرٰهِيْمَ : ابراہیم لِاَبِيْهِ اِلَّا : اپنے باپ کے لئے مگر عَنْ مَّوْعِدَةٍ : ایک وعدہ کے سبب وَّعَدَھَآ : جو اس نے وعدہ کیا اِيَّاهُ : اس سے فَلَمَّا : پھر جب تَبَيَّنَ : ظاہر ہوگیا لَهٗٓ : اس پر اَنَّهٗ : کہ وہ عَدُوٌّ لِّلّٰهِ : اللہ کا دشمن تَبَرَّاَ : وہ بیزار ہوگیا مِنْهُ : اس سے اِنَّ : بیشک اِبْرٰهِيْمَ : ابراہیم لَاَوَّاهٌ : نرم دل حَلِيْمٌ : بردبار
اور ابراہیم کا اپنے باپ کے لئے بخشش مانگنا تو ایک وعدے کے سبب تھا جو وہ اس سے کرچکے تھے۔ لیکن جب انکو معلوم ہوگیا کہ وہ خدا کا دشمن ہے تو اس سے بیزار ہوگئے۔ کچھ شک نہیں کہ ابراہیم بڑے نرم دل اور متحمل تھے۔
آیت نمبر 114: تفسیر 114:” وماکان استغفار ابرھیم لا بیہ الا عن موعدۃ وعدھآ ایاہ “ بعض مفسرین نے کہا ہے کہ ” ایاہ “ کی ھاء حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی طرف لوٹ رہی ہے اور وعدہ ان کے والد کی طرف تھا وہ یہ کہ ان کے والد نے وعدہ کیا تھا کہ وہ اسلام لے آئیں گے تو ابراہیم (علیہ السلام) نے کہا عنقریب میں آپ کے لیے اپنے رب سے استغفار کروں گا یعنی جب آپ مسلمان ہوگئے۔ اور بعض مفسرین رحمہم اللہ فرماتے ہیں کہ ” ایاہ “ کی ھاء اب کی طرف لوٹ رہی ہے یعنی ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنے والد سے وعدہ کیا تھا کہ وہ ان کے لیے استغفار کریں گے کیونکہ ان کے اسلام کی امید تھی اور وہ باری تعالیٰ کا قول ( ساستغفر لک ربی) ہے اس پر حسن کی قرأت ( وعدھا اباہ) باء کیسا تھ دلالت کرتی ہے اور اس پر دلیل کہ یہ وعدہ ابراہیم (علیہ السلام) کی طرف سے تھا اور استغفار والد کے شرک کی حالت میں کیا۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے ” قد کانت لکم اسوۃ حسنۃ فی ابراھیم ۔۔۔۔۔۔ الا قول ابراھیم لا بیہ لا ستغفرن لک “ تو اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں صراحت کردی کہ ابراہیم (علیہ السلام) کی اس استغفار میں پیروی نہ کی جائے گی۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنے باپ کیلئے جو استغفار کیا تھا اس کے اسلام لانے کی امید کی وجہ سے یا اس وعدہ کی وجہ سے جو انہوں نے اللہ تعالیٰ سے کیا تھا لاستغفرن الک۔” فلما تبین لہ انہ عدو للہ “ اس کے کفر پر مرنے کی وجہ سے ” تبرأ منہ “ اور بعض نے کہا جب آخرت میں ا ن پر واضح ہوگا کہ یہ اللہ کا دشمن تھا تو اس سے برأت ظاہر کریں گے۔ حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ قیامت کے دن ابراہیم (علیہ السلام) کی اپنے والد آزر سے ملاقات ہوگی اور آزر کے چہرے پر سیاہی اور غبار ہوگا تو حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اس کو کہیں گے کیا میں نے آپ کو نہیں کہا تھا کہ میری نافرمانی نہ کریں تو ان کے والد جواب دیں گے کہ آج کے دن میں تیری نافرمانی نہ کروں گا تو ابراہیم (علیہ السلام) کہیں گے کہ اے میرے رب ! آپ نے مجھ سے وعدہ کیا تھا کہ مجھے اس دن رسوانہ کریں گے جس دن سب اٹھائے جائیں گے تو میرے والد سے بڑی رسوائی کون سی ہے ؟ تو اللہ تعالیٰ فرمائیں گے کہ میں نے جنت کو کافروں پر حرام کردیا ہے۔ پھر آزر کو اس کی ٹانگوں سے پکڑ کر جہنم میں ڈال دیا جائے گا اور ایک روایت میں ہے کہ اس دن ابراہیم (علیہ السلام) اس سے برأت ظاہر کریں گے۔ ” ان ابراہیم لاواہ حلیم “۔۔۔۔۔۔ اواہ کی تفسیر میں ائمہ کے اقوال ” اواہ “ کے معنی میں اختلاف ہے۔ حدیث شریف میں وارد ہے کہ ” اواہ “ عاجزی کرنے والے گڑ گڑانے والے اور عبد اللہ بن مسعود ؓ فرماتے ہیں ” اواہ “ بمعنی دعا اور ابن عباس ؓ سے مروی ہے کہ ” اواہ “ بمعنی توبہ کرنے والا مئومن۔ حسن اور قتادہ رحمہما اللہ فرماتے ہیں کہ ” اواہ “ بمعنی اللہ کے بندوں پر رحم کرنے والا اور مجاہد (رح) فرماتے ہیں کہ ” اواہ “ بمعنی یقین رکھنے والا اور کعب احبار فرماتے ہیں کہ ” اواہ “ وہ شخص اواۃ وہ شخص جو اللہ کے خوف کی وجہ سے بہت زیادہ آہیں (آہ آہ) کرے۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اپنی زندگی میں دوزخ کے خوف سے بکثرت آہیں بھرتے تھے۔ عقبہ بن عامر (رح) فرماتے ہیں کہ ” اواہ “ جو اکثر اللہ کا ذکر کرے اور سعید بن جبیر ؓ سے مروی ہے کہ ” اواہ “ بمعنی خیر کی تعلیم دینے والا اور ابراہیم نخعی (رح) فرماتے ہیں بمعنی فقیہ ابو عبیدہ نے کہا کہ اواہ سے وہ شخص مراد ہے جو خوف سے آہ آہ کرنے والا یقین کی وجہ سے گڑ گڑانے والا اور طاعت کا التزام کرنے والا زجاج نے کہا کہ ابو عبیدہ کا قول ان تما م معانی کو جامع ہے جو اواہ کے بیان کئے جاتے ہیں او اہ وہ آواز جو سینے سے سانس لیتے وقت آواز سے نکلے ( جس کو آسان الفاظ میں ٹھنڈا سانس بھی کہا جاتا ہے) اور والحلیم وہ شخص جو اس کو گالی دے یا ناپسند بات کہے اس سے در گزر کرے۔ جیسا کہ ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنے والد کی دھمکی کا جواب سلام سے دیا۔” لئن لم تنتہ لا رجمنک واھجرنی ملیا قال سلام علیک ساستغفر لک ربی “ ابن عباس ؓ سے مروی ہے کہ انہوں نے فرمایا کہ حلیم بمعنی سردار ہے۔
Top