Mafhoom-ul-Quran - Al-Hujuraat : 7
وَ مَا كَانَ اسْتِغْفَارُ اِبْرٰهِیْمَ لِاَبِیْهِ اِلَّا عَنْ مَّوْعِدَةٍ وَّعَدَهَاۤ اِیَّاهُ١ۚ فَلَمَّا تَبَیَّنَ لَهٗۤ اَنَّهٗ عَدُوٌّ لِّلّٰهِ تَبَرَّاَ مِنْهُ١ؕ اِنَّ اِبْرٰهِیْمَ لَاَوَّاهٌ حَلِیْمٌ
وَمَا كَانَ : اور نہ تھا اسْتِغْفَارُ : بخشش چاہنا اِبْرٰهِيْمَ : ابراہیم لِاَبِيْهِ اِلَّا : اپنے باپ کے لئے مگر عَنْ مَّوْعِدَةٍ : ایک وعدہ کے سبب وَّعَدَھَآ : جو اس نے وعدہ کیا اِيَّاهُ : اس سے فَلَمَّا : پھر جب تَبَيَّنَ : ظاہر ہوگیا لَهٗٓ : اس پر اَنَّهٗ : کہ وہ عَدُوٌّ لِّلّٰهِ : اللہ کا دشمن تَبَرَّاَ : وہ بیزار ہوگیا مِنْهُ : اس سے اِنَّ : بیشک اِبْرٰهِيْمَ : ابراہیم لَاَوَّاهٌ : نرم دل حَلِيْمٌ : بردبار
خوب جان رکھو کہ تمہارے درمیان اللہ کا رسول موجود ہے۔ اگر وہ بہت سے معاملات میں تمہاری بات مان لیا کریں تو تم مشکلات میں پڑجاؤ۔ مگر اللہ نے تمہاری طرف ایمان کو محبوب جان ہے اور اسے تمہارے دلوں میں مزین کردیا ہے۔ اور کفر، گناہ اور نافرمانی کو تم سے ناپسند کیا ہے۔ ایسے ہی لوگ اللہ کے فضل و احسان سے راہ راست پر ہیں۔
صحابہ کرام کے ایمان کی گواہی تشریح : ان آیات کا تعلق بھی تھوڑا سا قبیلہ بنی المصطلق کے واقعہ سے ہے۔ جب صحابہ نے نبی کریم ﷺ کو فوج کشی کا مشورہ دیا تو رب الاعلیٰ نے فرمایا کہ تم اچھی طرح سوچ لو کہ نبی اکرم ﷺ ہر لحاظ سے تم سے زیادہ محترم، کامل اور معاملہ فہم ہیں اس لیے تم لوگ ان کو کسی بھی فیصلہ پر مجبور نہ کرو۔ کیونکہ اب اگر تمہارے مشورہ پر عمل کرتے ہوئے فوجی اقدام کرلیا جاتا تو تم سب کو کس قدر مشکلات، نقصان اور شرمندگی کا سامنا کرنا پڑتا ؟ پھر ان صحابہ کرام کا ذکر ہے کہ جنہوں نے اس مشورہ دینے میں حصہ نہ لیا تھا۔ ان کی تعریف میں اللہ رب العزت فرماتے ہیں۔ کہ صحابہ کرام جن کے دل ایمان و یقین سے بھرے ہوئے ہیں۔ کفر، شرک اور نافرمانی ان کے قریب سے بھی نہیں گزر سکتی اور یہ ہدایت و ایمان کی پختگی ان کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے خاص تحفہ ملا ہوا ہے۔ اور ان کی عظمت کا ذکر رب کریم نے بھی کیا ہے۔ صحابہ کرام میں بھی کچھ درجات ہیں۔ یہ تو رب علیم و حکیم ہی جانتا ہے کہ کس کو کیا درجہ دیا گیا اور کیوں دیا گیا ؟ بہرحال سب صحابہ کرام قابل عزت و احترام ہیں کیونکہ ان کو ایسے نبی کی صحبت میں رہنا نصیب ہوا جو کہ ہر طرح سے مرد کامل، محسن انسانیت اور رہبر مخلوق کائنات ہیں۔ آپ کا شخصی (خود اپنا) کردار رحمت، شرافت، شفقت، عبادت، شجاعت، عدالت، صداقت، سخاوت، فراست، متانت، ایثار، احساس ذمہ داری، عاجزی تواضع، صبر، توکل، ثابت قدمی اور دانش مندی سے مزین (سجا ہوا) ہے۔ کون سی ایسی انسانی صفت ہے جو آپ کو رب العٰلمین نے نہ دے رکھی تھی۔ ایسے مکمل انسان کے پاس جو لوگ ہر وقت موجود رہتے تھے بھلا وہ اخلاقیات میں کس طرح کم تر ہوسکتے تھے۔ اسی لیے تو کہتے ہیں اچھے انسان سے اس کے دوست کی پہچان ہوسکتی ہے اور صحابہ کرام تو اللہ کے فضل و کرم سے خاص طور پر نوازے ہوئے ہوتے ہیں۔ محمد موسیٰ روحانی ” گلستان قناعت ” میں لکھتے ہیں۔” بہر حال صالحین کی صحبت و تربیت کی برکات اظہر من الشمس (سورج سے زیادہ روشن) ہیں۔ ان کی صحبت مبارکہ کی برکت سے انوار باطنیہ و ظاہر یہ حاصل ہوتے ہیں۔ دل کی اصلاح ہوتی ہے۔ حب دنیا، حب جاہ اور رزق کے بارے میں بےاطمینانی و بےقراری کا ازالہ ہوتا ہے۔ اور مال و دولت کی فراوانی سے پیدا ہونے والے خطرات اور برے نتائج سے خلاصی ہوتی ہے۔ غرض یہ ہے کہ اتنے اچھے لوگوں کو بھی اللہ کی طرف سے اخلاقی ہدایات ملتی رہی ہیں ہمیں ان کو غور سے پڑھنا سمجھنا اور ان پر عمل کرنا ہی ایمان کی سلامتی اور انسان کامل بننے میں مدد دے سکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیشہ ہم پر اپنا فضل و کرم کرے اور ہمیں ایمان کی روشنی اور ایمان و یقین کی سلامتی عطا کرے کہ ہم قرآن و سنت کو اپنا رہبر بنا کر نجات دارین حاصل کریں۔ آمین ثم آمین۔
Top