Tafseer-e-Baghwi - An-Nisaa : 139
وَ مِنْهُمُ الَّذِیْنَ یُؤْذُوْنَ النَّبِیَّ وَ یَقُوْلُوْنَ هُوَ اُذُنٌ١ؕ قُلْ اُذُنُ خَیْرٍ لَّكُمْ یُؤْمِنُ بِاللّٰهِ وَ یُؤْمِنُ لِلْمُؤْمِنِیْنَ وَ رَحْمَةٌ لِّلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مِنْكُمْ١ؕ وَ الَّذِیْنَ یُؤْذُوْنَ رَسُوْلَ اللّٰهِ لَهُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ
وَمِنْهُمُ : اور ان میں سے الَّذِيْنَ : جو لوگ يُؤْذُوْنَ : ایذا دیتے (ستاتے) ہیں النَّبِيَّ : نبی وَيَقُوْلُوْنَ : اور کہتے ہیں هُوَ : وہ (یہ) اُذُنٌ : کان قُلْ : آپ کہ دیں اُذُنُ : کان خَيْرٍ : بھلائی لَّكُمْ : تمہارے لیے يُؤْمِنُ : وہ ایمان لاتے ہیں بِاللّٰهِ : اللہ پر وَيُؤْمِنُ : اور یقین رکھتے ہیں لِلْمُؤْمِنِيْنَ : مومنوں پر وَرَحْمَةٌ : اور رحمت لِّلَّذِيْنَ : ان لوگوں کے لیے جو اٰمَنُوْا : ایمان لائے مِنْكُمْ : تم میں وَالَّذِيْنَ : اور جو لوگ يُؤْذُوْنَ : ستاتے ہیں رَسُوْلَ اللّٰهِ : اللہ کا رسول لَهُمْ : ان کے لیے عَذَابٌ : عذاب اَلِيْمٌ : دردناک
اور ان میں بعض ایسے ہیں جو پیغمبر ﷺ کو ایذا دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ شخص نرا کان ہے (ان سے) کہہ دو کہ (وہ) کان (ہے تو) تمہاری بھلائی کے لئے۔ اور خدا کا اور مومنوں (کی بات) کا یقین رکھتا ہے۔ اور جو لوگ تم میں ایمان لائے ہیں انکے لئے رحمت ہے۔ اور جو لوگ رسول خدا ﷺ کو رنج پہنچاتے ہیں ان کے لئے عذاب الیم (تیار) ہے۔
تفسیر 61۔” ومنھم الذین یوذون النبی ویقولون ھو اذن “ یہ آیت منافقین کی ایک جماعت کے بارے میں نازل ہوئی ہے جو نبی کریم ﷺ کو تکلیف دیتے تھے اور نا مناسب باتیں کرتے تھے۔ ان میں سے بعض کہتے کہ ایسا کام نہ کرو کیونکہ ہمیں خوف کہ ان تک تمہاری باتیں پہنچ گئیں تو ہم پر کوئی مصیبت آجائے گی تو جلاس بن سوید کہنے لگا ہم جو چاہیں گے کہیں گے پھر ان کے پاس جا کر انکار کردیں گے اور قسمیں اٹھائیں گے تو وہ ہماری بات کی تصدیق کردیں گے کیونکہ محمد ﷺ اذن ہیں ۔ جب کوئی شخص جو کچھ اس کو کہا جائے اس کو سن لے اور قبول کرلے تو اس کو کہا جاتا ہے ” فلان اذن سامعہ ‘ ‘ اور بعض نے کہا اذن بمعنی کان والے ہیں یعنی ذواذن ۔ اور محمد بن اسحاق بن یسار (رح) کہتے ہیں کہ یہ آیت منافقین کے ایک شخص نبتل بن حارث کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔ یہ شخص کان کٹا ہوا سرخ آنکھوں ، سیاہ رخساروں والا بد صورت تھا۔ نبی ﷺ نے فرمایا کہ جس کو شیطان کی طرف دیکھنا پسند ہو تو وہ نبتل بن حارث کی طرف دیکھ لے۔ یہ نبی کریم ﷺ کی باتیں منافقین کو جا کر بتا تا تھا ۔ اس کو کہا گیا کہ ایسا نہ کر تو کہنے لگے محمد ﷺ اذن ہیں جو ان کو کوئی بات کہے اس کی تصدیق کردیتے ہیں تو ہم چاہیں کہہ لیں ۔ پھر جب ان کے پاس آتے ہیں اور اللہ کی قسم کھالیتے ہیں تو وہ ہماری تصدیق کرتے ہیں تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی ” قل اذن خیر لکم “ یعنی خیر اور تمہاری بھلائی کی باتیں سنتے ہیں شر اور فساد کی باتیں نہیں سنتے۔ یہ معنی اس وقت ہے جب اذن کی خیر کی طرف مضاف کیا جائے جیسا کہ اکثر حضرات کی قرأت ہے اور اعشی اور برجمی نے ابوبکر (رح) سے دونوں کو تنوین کے ساتھ مرفوع پڑھا ہے ” اذن خیبرً “ یعنی اگر وہ تم سے سن کر تمہاری تصدیق کردیتے ہیں تو یہ تمہارے لیے اس سے بہتر ہے کہ وہ تمہاری تکذیب کریں اور تمہاری بات کو قبول نہ کریں ۔ پھر ان کی بات کی تکذیب کرتے ہوئے فرمایا کہ ” یومن باللہ “ نہیں بلکہ وہ تو اللہ پر ایمان لاتے ہیں ۔ ” یومن للمومنین “ یعنی مؤمنین کی بات کی تصدیق کرتے ہیں نہ کہ منافقین کی بات کی ۔ کہا جاتا ہے امنتہ وامنت لہ یہ ( صدقۃ میں نے اس کی تصدیق کی) ورحمۃ حمزہ نے ( ورحمۃ) زیر کے ساتھ پڑھا ہے اس معنی کی بناء پر کہ ( اذن خیر لکم) و (اذن رحمۃ) اور دیگر حضرات نے پیش کے ساتھ پڑھا ہے یعنی مواذن خیر و ھو رحمۃ للذین امنوا منکم ‘ ‘ کیونکہ یہ مؤمنین کے ایمان کا سبب ہے۔” والذین یوذون رسول اللہ لھم عذاب الیم “۔
Top