Tafseer-e-Baghwi - At-Tawba : 65
وَ لَئِنْ سَاَلْتَهُمْ لَیَقُوْلُنَّ اِنَّمَا كُنَّا نَخُوْضُ وَ نَلْعَبُ١ؕ قُلْ اَبِاللّٰهِ وَ اٰیٰتِهٖ وَ رَسُوْلِهٖ كُنْتُمْ تَسْتَهْزِءُوْنَ
وَلَئِنْ : اور اگر سَاَلْتَهُمْ : تم ان سے پوچھو لَيَقُوْلُنَّ : تو وہ ضرور کہیں گے اِنَّمَا : کچھ نہیں (صرف) كُنَّا : ہم تھے نَخُوْضُ : دل لگی کرتے وَنَلْعَبُ : اور کھیل کرتے قُلْ : آپ کہ دیں اَبِاللّٰهِ : کیا اللہ کے وَاٰيٰتِهٖ : اور اس کی آیات وَرَسُوْلِهٖ : اور اس کا رسول كُنْتُمْ : تم تھے تَسْتَهْزِءُ وْنَ : ہنسی کرتے
اور اگر تم ان سے (اس بارے میں) دریافت کرو تو کہیں گے کہ ہم تو یوں ہی بات چیت اور دل لگی کرتے تھے۔ کہو کیا تم خدا اور اسکی آیتوں اور اس کے رسول ﷺ سے ہنسی کرتے تھے ؟
65 اس آیت کا نزول تین منافقین کے متعلق ہوا کلبی ، مقاتل اور قتادہ رحمہم اللہ نے آیت کا سبب نزول یہ بیان کیا ہے کہ نبی کریم ﷺ غزوہ تبوک کے سفر میں تھے تو آپ کے آگے تین منافق چل رہے تھے ، دو قرآن اور رسول اللہ ﷺ کا مذاق اڑا رہے تھے اور تیسرا ہنس رہا تھا، بعض نے کہا وہ یہ کہہ رہے تھے کہ محمد ﷺ کا خیال ہے کہ وہ روم پر غالب آجائیں گے اور انکے شہر فتح کرلیں گے ، کتنی عجیب بات ہے۔ اور بعض نے کہاوہ یہ کہتے جا رہے تھے کہ محمد ﷺ کا خیال ہے کہ ہمارے ان ساتھیوں کے بارے میں جو مدینہ میں ہیں قرآن نازل ہوا ہے تو اللہ تعالیٰ نے ان کی ان باتوں پر اپنے نبی ﷺ کو مطلع کردیا تو آپ (علیہ السلام) نے فرمایا تم اپنی سواریوں پر رک جائو اور ان کو بلوایا اور پوچھا کہ تم نے یہ بات کی ہے ؟ تو وہ کہنے لگے کہ ہم تو گپ شپ کر رہے تھے جیسے مسافر سفر طے کرنے کے لیے کرتے ہیں ۔ حضرت عمر ؓ فرماتے ہیں کہ میں نے عبد اللہ بن ابی کو دیکھا کہ وہ آپ (علیہ السلام) کے آگے دوڑتا آ رہا ہے اور پتھر اس کو زخمی کر رہے ہیں اور کہتا آ رہا تھا ہم تو صرف گپ شپ کر رہے تھے اور رسول اللہ ﷺ اس کو فرما رہے تھے کہ کیا اللہ اور اس کی آیات اور اس کے رسول ﷺ کے ساتھ تم استہزاد کرتے ہو اور اس کی طرف متوجہ نہ ہو رہے تھے اور اس پر کوئی بات زیادہ نہ کر رہے تھے۔ ” قل “ یعنی اے محمد منافقین کو کہہ دیں ” قل ابا للہ وایتہ “ اس کی کتاب ” ورسولہ کنتم تستھزون “۔
Top